ایک نیوز : عراق کے ایک سابق جج نے مصلوب صدر صدام حسین کی پھانسی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔
صدام حسین کی پھانسی کی سزا پرعمل درآمد کے موقعے پرموجود جج جسٹس منیر حداد نے بتایا کہ صدام حسین کو پھانسی دینے کے پورے عمل میں 35 منٹ لگے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت متعدد ججوں نے سزائے موت پر دستخط کرنے سے گریز کیا تھا۔
جج منیر حداد نے دارالحکومت بغداد کے علاقے الکاظمیہ کے ایک ہال میں گواہی دی کہ 30 دسمبر 2006ء کو صدام کی گرفتاری کے تین سال بعد پھانسی دی گئی۔
جسٹس منیر حداد اس وقت سزائے موت پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ اور عراقی سپریم کورٹ برائے جرائم میں اپیل کورٹ کے نائب سربراہ تھے۔
سزائے موت پر عمل درآمد کے عمل کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی کہ "اس عمل میں 35 منٹ لگے۔ متعدد ججوں نے سزائے موت پر عمل درآمد پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں نمائندگی کے لیے بھیجا"۔
صدر صدام حسین کو جہاں پھانسی دی گئی وہ جگہ پہلے ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کا ہیڈ کوارٹرتھا اور صدام حسین کی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف سزائے موت پر عمل درآمد کرتی تھی۔
تاہم صدام 2003ء کے بعد اس جگہ پر پھانسی پانے والی پہلی سیاسی شخصیت ہیں اور وہاں پر پھانسی پانے والے چونسٹھویں شخص تھے۔اس سے قبل اس مقام پر دہشت گردی کے الزام میں القاعدہ کے 63 ارکان کو پھانسی دی گئی تھی
سزائے موت پر عمل درآمد کی رپورٹ میں پانچ افراد کی موجودگی کا بھی انکشاف کیا گیا،جنہیں سزا پرعمل درآمد کے وقت سرکاری کام اور فرائض تفویض کیے گئے تھے ساتھ ہی پھانسی کا وقت اور مدت بھی بتائی گئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "پھانسی کے وقت ہم 14 افراد تھے، جن میں وہ پانچ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے رپورٹ پر دستخط کیے تھے اور وہ سب کا تعلق دعوہ پارٹی اور المالکی کے دفتر سے تھا۔