ایک نیوز نیوز: القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد پہلی مرتبہ امریکا افغانستان اعلی سطحی رابطہ ، بائیڈن انتظامیہ کے اعلی حکام نے دوحہ میں افعان طالبان سے براہ راست ملاقات کی ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور محکمہ خارجہ میں افغان امور کے ذمہ دار عہدیدار کو طالبان وفد کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجا تھا۔ طالبان وفد میں ان کے انٹیلی جنس چیف عبد الحق واسع بھی شامل تھے
یاد رہے الظواہری جولائی کے آخر میں کابل میں ایک اپارٹمنٹ میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
اقوام متحدہ نے اس ہفتے جاری اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگست 2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی معیشت کو "خوفناک تباہی" کا سامنا ہے۔ طالبان حکومت نے دس سال میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو ایک سال سے بھی کم عرصہ میں ختم کرکے رکھ دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایشیا اور بحرالکاہل کے ترقیاتی پروگرام کے ڈائریکٹر کانی وگنارایا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ صرف ایک سال میں افغان معیشت کو تقریباً 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا 10 سال کے جمع کردہ اثاثوں کے برابر اثاثے صرف 10 ماہ میں ضائع کردئیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تباہی دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھی گئی۔
وگنارایا نے مزید کہا کہ اگست 2021 سے بنیادی کھانے کی اشیا کی ٹوکری کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ افغان اپنی آمدنی کا 60 سے 70 فیصد اور کچھ 80 فیصد حصہ خوراک اور ایندھن پر خرچ کر رہے ہیں۔
افعانستان کی 95 سے 97 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایک سال قبل ایسی آبادی 70 فیصد تھی۔
حالیہ رپورٹ میں افغان معیشت کی ایک تاریک تصویر پیش کردی گئی ہے۔ ایسی معیشت جس میں بنکنگ اور مالیاتی نظام زوال کا شکار ہوگیا ہے۔ 2022 کے وسط تک ملک میں 70 ہزار افراد بے روز گار ہوگئے ہیں۔ نوکریوں سے محروم ہونے والے ان افراد میں بھی اکثریت خواتین کی ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہوگیا ہے خاص طور پر جنوبی افغانستان میں خوراک کی صورتحال مزید خراب ہے۔