ایک نیوز نیوز: ماہرین نفسیات کے مطابق 34 فیصد پاکستانی آبادی ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 10 اکتوبر کو ذہنی صحت سےمتعلق آگاہی کا عالمی دن منا یا جاتا ہے ۔ اس سال کا ذہنی صحت کے موضوع کو ترجیح بنیادوں پر رکھا گیا ہے ۔
پاکستانی سائیکیٹریک سوسائٹی کے مطابق ملک میں جہاں ماہرین نفسیات کی کمی ہے وہی سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین نفسیات کی آسامیاں ہی موجود نہیں ہیں۔ جس جگہ آسامیاں موجود ہیں وہاں پر ماہر نفسیات ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ ذہنی صحت سے متاثرہ افراد کو اپنے معاشرے کا حصہ بنائیں اور ذہنی امراض کو پاگل پن سے نہیں ملایا جائے۔ ان لوگوں کو زندگی میں واپس لانے کے لیےہر ممکن اقدامات کریں۔ ما ہر نفسیات کی جانب سے ذہنی مسائل کی بڑی وجہ بے روزگاری اور قدرتی آفت ہے۔
ماہرین نفسیات کا مزید کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں بے روز گاری اور سیلاب جیسی قدرتی آفت کی وجہ سے معاشرے میں جسمانی نقصان پہنچا ہے وہیں اس کی وجہ سے ذہنی مسائل کو بھی کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشد نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپریشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈپریشن ہونے والا شخص مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں 60 سال سے زائد افراد مختلف ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ الزائمرزاور ڈایمینشیا 50 سال سے زائد افراد میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ بوڑھے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ذہنی امراض کی بیماریوں کی وجہ سے پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے.
یاسمین راشد نے مزید کہا کہ ذہنی تکلیف گھر والوں کیلئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے ۔ جسمانی تکالیف تو نظر آ جاتی ہیں لیکن ذہنی تکالیف نطر نہیں آتی ہیں۔ لوگوں کا رجحان ذہنی تکالیف کے علاج معالجہ میں کم ہے.
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کو ٹیچنگ ہسپتال بنایا جا رہا ہے جہاں روزانہ سیکڑوں مریضوں کو علاج معالجہ کیا جا رہا ہے۔یہاں تمام ذہنی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں نیا بہترین کچن بھی بنایا گیا ہے جہاں روزانہ 1500سے زائد مریضوں کیلئے کھانا بنایا جائے گا