ایک نیوز: بالی ووڈ میں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کو منفی ظاہرکرنے والی فلموں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک 37 مسلمان مخالف فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔
متنازعہ ترین مسلمان مخالف فلموں میں کشمیر فائلز، کیرالہ سٹوری اور لپ سٹک انڈر مائی برقعہ شامل ہیں۔ رواں سال اب تک 6 مسلمان مخالف فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔ فلموں میں گودھرا، مشن مجنوں اور 72 حوریں شامل ہیں۔
2024 کے انتخابات سے قبل 20 مسلمان مخالف فلموں کی ریلیز بھی متوقع ہے۔ 2014 سے قبل مسلمان مخالف فلموں کی تعداد 17 تھی۔ زیادہ تر فلموں میں مسلمانوں کو ولن، دہشتگرد یا کسی مافیا کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔ برصغیر کی مسلم تاریخ پر بننے والی فلموں میں بھی مسلمانوں کو ولن اور منفی کرداروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پانی پت، پدماوت اور ٹیپو میں حقائق کے برعکس مسلمانوں کو ولن کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ فلم ٹیپو میں مضحکہ خیز دعویٰ کیا گیا کہ شیر میسور نے چالیس لاکھ ہندوؤں کو جبراً مذہب تبدیلی پر مجبور کیا۔ فلم میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ٹیپو سلطان نے 8 ہزار مندر تباہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد ہندوؤں کو پاپند سلاسل کیا۔
اس کے برعکس ادھی پرش، رامائن اور باہوبلی جیسی افسانوی فلموں میں ہندوؤں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مودی کی چاپلوسی میں بالی ووڈ نے مودی پر بھی فلم بنا ڈالی۔ فلم گودھرا میں تو گجرات فسادات کا ملبہ ہی مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔
انوپ راگھو کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ اور مودی سرکار کے درمیان مشترکہ مفادات کا رشتہ ہے۔ سیاسی فوائد کیلئے مودی سرکاری کئی مسلمان مخالف فلموں پر ٹیکس کی چھوٹ بھی دیتی ہے۔
اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق کشمیر فائلز اور کیرالہ سٹوری کو ٹیکس چھوٹ اور بی جے پی کی طرف سے سیاسی سرپرستی بھی حاصل تھی۔
انوپ راگھو نے مزید کہا کہ 2019 کے انتخابات سے قبل بھی بی جے پی نے بالی ووڈ کو مسلمان مخالف فلمیں بنا کر سیاسی فوائد کے لئے استعمال کیا۔