ایک نیوز: سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی پھانسی کیخلاف اپیل اور سنگین غداری سے متعلق دیگر مقدمات کے خلاف اپیل سماعت کیلئے منظور کر لی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے ،بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین،جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
خصوصی عدالت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل میں حامد خان پیش ہوئے۔پاکستان بار کونسل کی جانب سے عابد ساقی عدالت میں پیش ہوئےجبکہ سندھ ہائیکورٹ بار کی نمائندگی رشید رضوی کر رہے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اچھا ہے کہ تمام وکلاء موجود ہیں،وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں بنیچز تبدیل کرنے کے حق میں نہیں،جسٹس منصور علی شاہ کو بنچ میں اس لئے شامل کیا گیا کہ وہ ماضی میں یہ مقدمہ سن چکے ہیں،سمجھ نہیں آ رہا کہ 2019 کے مقدمات آج تک مقرر کیوں نہیں ہوئے،اس کیس میں کچھ اپیلیں 2019 اور کچھ 2020 کی ہیں،2019 سے اب تک کیس مقرر کیوں نہیں ہوا کیا کسی وکیل نے التوا کی درخواست دی تھی۔
وکلاء نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے کسی نے التوا کی درخواست نہیں کی کیس ویسے ہی نہیں لگایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کو پہلی مرتبہ سن رہے ہیں اس لیے ایک ایک نکتہ سمجھ کر آگے بڑھیں گے۔عدالت نے پرویز مشرف کی سزا کیخلاف اپیل مقرر کرنے کی متفرق درخواست منظور کرلی۔
سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دینا شروع کردیئے کہا کہ پرویز مشرف بیماری کے باعث ٹرائل سے غیر حاضر رہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ بتائیں آپ کی اپیل اتنا عرصہ مقرر کیوں نہیں ہوئی؟۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کیلئے سرینڈر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اپیل کیلئے سرینڈر قانون ہے یا پریکٹس؟۔
سلمان صفدر نے کہا کہ آرڈر 23 رولز 3 کے تحت سرینڈر ضروری تھا۔میں جنرل ر پرویز مشرف کی نمائندگی کر رہا ہوں,جنرل (ر) پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سنائی گئی سزا کے خلاف براہ راست اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف براہ راست اپیل سپریم کورٹ میں آ سکتی ہے؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ فوجداری قانون میں ترمیم کے بعد خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی،خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ متفقہ نہیں تھا،جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میں آپ کی درخواست کو نمبر کیوں نہیں لگا؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کیا کہ سزا یافتہ کے سرنڈر کیے بغیر اپیل دائر نہیں ہو سکتی،سپریم کورٹ نے ان چیمبر سماعت میں پرویز مشرف کے خلاف اپیل اعتراضات کے ساتھ کھلی عدالت میں مقرر کرنے کا حکم دیا،پرویز مشرف کی سزا کا فیصلہ اس لیے چیلنج کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گی،میرا موقف تھا کہ ایک شخص کا ٹرائل اور سزا عدم موجودگی میں ہوسکتی ہے تو اپیل کیوں نہیں،میں کہتا رہا کہ پرویز مشرف کی غیر حاضری بدنیتی نہیں،مشرف سزا کے بعد ملک سے نہیں بھاگے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ چمبر اپیل میں جج اپیل مسترد کرتا ہے یا منظور،تیسرا آپشن یہ ہے کہ جج اپیل کو اوپن کورٹ میں مقرر کردے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپیل اوپن کورٹ میں کیوں مقرر نہ ہوئی؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب شاید نہ دے سکوں،میں مشرف کے ساتھ اس طرح رابطہ میں نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم جب اپنا احتساب نہیں کریں گے تو باقیوں کا کیسے کریں گے؟چیمبر اپیل میں جب آرڈر ہوگیا تھا تو اس اپیل کو مقرر ہونا چاہئے تھا۔
سلمان صفدر نے بے نظیر بھٹو بنام احتساب کمشنر کیس کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ مشرف کی اپیل فکس کرنے کی متفرق درخواست کسی کو اعتراض تو نہیں،کسی فریق کی جانب سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا،آپ مشرف کے لواحقین سے تازہ ہدایات لے لیں کیا وہ اپیل کی پیروی کریں گے۔
مشرف کے وکیل کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد آنے کی ہدایت کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر متفرق درخواست کی حد تک بات ختم ہے تو اگے بڑھیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں خصوصی عدالت کو غیر آئینی مقرر دینے والے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر معاونت نہیں کروں گا،میں اپنا کیس صرف سزا کے خلاف اپیل تک رکھوں گا۔
مشرف کی اپیل مقرر کرنے کا حکمنامہ
چیف جسٹس پاکستان نے مشرف کی اپیل مقرر کرنے کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔
حکمںامہ میں کہا گیا ہے کہ مشرف کے وکیل نے بتایا کہ اپیل پر رجسٹرار نے اعتراض لگایا تھا،وکیل نے بتایا کہ اعتراض کے خلاف اپیل جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں مقرر ہوئی،وکیل نے بتایا کہ چیمبر سے جج نے کیس لارجر بینچ میں لگانے کا کہا،وکیل نے بتایا اس کے بعد کیس مقرر نہیں ہوا اور مشرف کی وفات ہو گئی،مشرف کے وکیل نے کہا کہ آئین پاکستان بھی اپیل کا حق دینے کی بات کرتا ہے،کیس میں تمام فریقین سے پوچھا گیا کہ مشرف کی اپیل کو مقرر کرنے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔
حکمنامہ میں مزید کہا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے اعتراض نہیں اٹھایا،افسوس ناک ہے کہ چیمبر میں جج کے حکم کے باوجود اپیل آج تک مقرر نہیں ہوئی،اپیل کنندہ یا اس کے وکیل کو اپیل مقرر نہ ہونے پر ذمہ دار نہیں کہا جا سکتا،کسی کو بھی عدالت کے کنڈکٹ کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے،اپیل کسی کی بھی سزا یافتہ شخص کا حق ہے،مشرف کی اپیل کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی متفرق درخواستیں منظور کی جاتی ہیں۔
رجسٹرار آفس کو مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کو نمبر لگا کر مقرر کرنے کی ہدایت کردی گئی۔خصوصی عدالت میں ٹرائل کی آئینی حیثیت سے متعلق سماعت شروع ہوگئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ خصوصی عدالت کا ٹرائل کہاں چلا تھا؟۔
وکلاء نے کہا کہ ٹرائل اسلام آباد میں چلا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا فیلڈ میں ہوتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے خلاف فیصلہ دیا،حامد خان صاحب آپ کیا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو فیصلہ مانتے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ئیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا تھا،لاہور ہائیکورٹ کے خصوصی عدالت کے خلاف فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس معاملہ پر کچھ کہنا چاہیے گے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ چلیں کوئی بات نہیں۔
عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں بھی سماعت کیلئے منظور کر لیں اور رجسٹرار آفس کو لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیلیں نمبر لگا کر مقرر کرنے کی ہدایت کردیں۔
چیف جسٹس پاکستا ن نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت اگلے جمعہ کو رکھ لیں۔
مشرف کے وکیل نے 4 ہفتے کی مہلت مانگ لی۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے ہدایات لینے کے لئے تھوڑا زیادہ وقت دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ایک ہی ہدایت لینی ہے کہ اپیل چلانی ہے یا نہیں؟۔
چیف جسٹس نے مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ میں نے اپیل پڑھی ہے یہ ایک اچھی دستاویز ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 نومبر تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کے انتقال کے 9 ماہ بعد ان کی سزا کالعدم کئے جانے کیخلاف اپیل سمیت تمام مقدمات سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقررکی گئی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف رواں سال پانچ فروری کو دبئی میں انتقال کر گئے تھے۔