ایک نیوز: جنوب مشرقی بحیرہ عرب پر ایک موسمیاتی دباؤ طوفان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ فی الحال یہ طوفان شمال مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے اور کراچی سے تقریباً 910 کلومیٹر دور ہے۔اس کی شدت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ اس طوفان کو ”بِپرجوئے“ کا نام دیا گیا ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق بِپرجوئے کا رُخ اب پاکستان اور بھارت کی ساحلی پٹی کی جانب ہے۔ سمندری طوفان بیپار جوئے نے مزید شدت اختیار کر لی ،تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ طوفان کس ساحلی پٹی سے ٹکرائے گا۔سندھ یا بلوچستان میں سے کس جگہ جائے گا اسکی سمت کا تعین کل صبح تک ہوجائےگا،سمندری طوفان جب ٹکراتا ہے تو اسکے ٹکرانے سے قبل اور بعد طوفانی بارشوں اور طوفانی ہوائیں چلتی ہیں،
100 تو 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چل سکتی ہیں،سڑکوں پر موجود سائن بورڈ اور دیو ہیکل بل بورڈ اتارے جائے،کمزور ساخت کی عمارتوں کو خالی کروایا جائے،سمندر کی لہریں 10 تا 15 فٹ بلند ہونگی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان کراچی سے 950 کلو میٹر دور جنوب میں موجود ہے،طوفان بائپر جوائے شمال مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے۔طوفان جہاں جہاں سےگزررہا ہے سمندری لہریں 28 فٹ تک بلند ہورہی ہیں،طوفان گرد ہوائیں 130 سے 140 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چل رہی ہیں،سمندری طوفان سے ممکنہ خطرات کے باعث ماہی گیروں کو 12 جون سے سمندر میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے،شہر کا موجودہ درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ہے،ہوا میں نمی کا تناسب 65 فیصد ہے،ہوائیں 20 کلومیٹرفی گھنٹے کی رفتار سے چل رہی ہیں۔آج زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 34 سے 36 ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب کمشنرکراچی اقبال میمن نےسمندرمیں جانے پرپابندی عائد کردی ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق 11جون سےطوفان کےاثرات مکمل ختم ہونےتک سمندر میں جانےپردفعہ 144 نافذکردی گئی،سمندر میں نہانےاورشکارکرنےپرپابندی بھی عائد،گزشتہ 12گھنٹےپہلےکی رپورٹ کےمطابق سمندری بپرجوئےکارخ آہستہ آہستہ نارتھ ایسٹ کی جانب ہوا۔
نوٹیفیکشن کے مطابق سمندری طوفان کراچی کےجنوب میں1120کلومیٹرفاصلےپرہے،سمندری طوفان کےباعث 130سے150اور160کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے تیزہوائیں چلنےکاامکان ہے،سمندری طوفان کےباعث سمندرمیں پہلےسےموجودماہی گیروں کوبھی خطرہ ہے،کراچی ڈپٹی کمشنراوراسٹنٹ کمشنرپابندی پرعملدرآمدیقینی بنائیں۔
سائیکلون کا نام ”بِپرجوئے“ کیسے پڑا؟
اس سائیکلون کو ”بِپرجوئے“ نام بنگلہ دیش نے دیا ہے، یہ ایک بنگالی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”اچانک آںے والی بھیانک تباہی“۔
یہ نام عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کے ممالک نے 2020 میں فہرست میں شامل کیا تھا۔
اس فہرست میں شمالی بحر ہند کے اوپر بننے والے تمام ٹروپیکل طوفان بھی شامل ہیں، اور یہ تمام نام علاقائی اصولوں کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں۔
ڈبلیو ایم او کے مطابق، بحر اوقیانوس اور جنوبی نصف کرہ (ہندوستان اور جنوبی بحرالکاہل) میں بننے والے ٹروپیکل طوفانوں کو حروف تہجی کے مطابق نام ملتے ہیں جو مرد و خواتین کے ناموں ر مشتمل ہوتے ہیں، جبکہ شمالی بحر ہند میں نام حروف تہجی کے لحاظ سے تو درج کیے جاتے ہیں لیکن یہ ملک اور صنفی طور پر غیر جانبدار ہوتے ہیں۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں طوفانوں کے نام:
سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔
اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
”بِپر جوائے“ طوفان کو نام بنگلہ دیش کی جانب سے دیا گیا ہے۔
2004 سے قبل طوفانوں کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی، جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔
سن 1999 میں ایک سائیکلون پاکستان کے شہر بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام ”زیرو ٹو اے“ تھا جو اُس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔
بعد ازاں، پی ٹی سی میں شامل تمام ممالک کے محکمہ موسمیات کے درمیان طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں اور ادا کرنے میں سہل ہوں۔
پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔
اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔
پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں۔
یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔
پاکستان نے طوفانوں کے جو نام تجویز کیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ گلاب، اثنا، صاحب، افشاں، مناحل، شجانہ، پرواز، زناٹا، صرصر، بادبان، سراب، گلنار اور واثق۔