مہنگائی اگلے مالی سال 21 فیصد رہنے کی توقع ہے: اسحاق ڈار کی پوسٹ بجٹ کانفرنس

 مہنگائی اگلے مالی سال 21 فیصد رہنے کی توقع ہے: اسحاق ڈار کی پوسٹ بجٹ کانفرنس

ایک نیوز:وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا کہنا ہے کہ مہنگائی اگلے مالی سال 21 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےپوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد دو کمیٹیاں بناتے ہیں۔ان میں ایک بزنس کمیٹی اور دوسری تکنیکی کمیٹی بنائی جاتی ہے۔آج کمیٹیاں بن جائیں گی اور سوموار سے کام شروع کریں گے۔ بجٹ میں شامل نہ ہونے والی تجاویز کو یہ کمیٹیاں دیکھیں گی۔سینیٹ کی کمیٹی  کی جو بہتر سفارشات ہونگی ان کو شامل کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر 869 ارب لیوی کا ہدف رکھا گیا ہے۔پی ایس ڈی پی اور سبسڈیز پر اعتراض ہوا ہے اس کا جواب دوں گا۔جی ڈی پی کا حجم 105 ٹریلین روپے سے زیادہ ہے۔2018 میں پی ایس ڈی پی 1001 ارب روپے رکھا گیا تھا۔اس کے بعد یہ بڑا حصہ اگلے مالی سال کیلئے 1150 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

اسحاق ڈار نےکہا کہ دودھ پر 9 فیصد ٹیکس لگانےکی بات درست نہیں، ملک میں 90 فیصدکھلا دودھ بکتا ہے۔ صرف تجاویز تھی کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، واضح کرنا  چاہوں گا دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا، سابق فاٹا اور  پاٹا کے لیے مراعات میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے، پیٹرولیم لیوی سے 869 ارب روپے حاصل ہوں گے، ایف بی آر کا ٹیکس ہدف بھی حاصل ہو جائےگا، افراط زر اور  شرح نمو سے 1800 ارب روپے حاصل ہو جائیں گے،  صرف 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات لیے ہیں، پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے نہیں بڑھائی گئی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے رکھےگئے ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کل 1074ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے، اس میں 900 ارب روپے صرف پاور سیکٹر کے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں بڑے مسائل سبسڈی کے ہی تھے، خوردنی تیل درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کرنےکی بات درست نہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ہم نے روایت سے ہٹ کر بجٹ بنایا ہے۔ معاشی گروتھ ہوگی تو مہنگائی اور بیروزگاری کم ہوگی۔ بجٹ میں کسی نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان نہیں کیا گیا۔ سرکاری اور نجی شعبہ مل کر چلیں گے تو معیشت کا پہیہ چلے گا، آئی ایم ایف نے خود کہا ہے اگلے سال 3.5 فیصد جی ڈی پی گروتھ ہوگی۔ ہم فوڈ سیکیورٹی ملک بن سکتے ہیں۔ ایگرو بیسڈ کو ایس ایم ایز میں ڈال دیا، ان کو سستے قرضوں کی فراہمی کیلئے اسکیم لا رہے ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہےکہ جی ڈی پی کا ہدف اگلے مالی سال 3.5 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔مہنگائی اگلے مالی سال 21 فیصد رہنے کی توقع ہے، قرض بلحاظ جی ڈی پی اگلے مالی سال 66.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔اس بجٹ میں قرضوں پر شرح سود کی ادائیگی میں بڑی رقم جائے گی، ہمارا پہلا ہدف ہوگا کہ 2017 کے میکرو اکنامک اہداف کو حاصل کریں گے۔زراعت پر اس بجٹ میں توجہ دی جارہی ہے، ہماری معیشت کی گراوٹ رک گئی ہے اب استحکام کی طرف لے کر جانا ہے۔آئی ٹی کی صنعت کی بہتری کیلئے مراعات دی ہیں۔سالانہ 24 ہزار ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔زراعت کے 1800 ارب کے زرعی قرضے کو 2250 ارب مقرر کرنے کی تجویز ہے۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے،  بزنس اور زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سکیورٹی بڑھےگی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے، وزیراعظم کےکسان پیکج کے بعدگندم کی پیداوار میں کافی فرق نظر آیا، زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر شفٹ کرنا ضروری ہے، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنےکے لیے 30 ارب روپے رکھے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اگلے مالی سال کیلئے ساڑھے تین فیصد جی ڈی پی کا ہدف باآسانی حاصل ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے پاکستان کی جی ڈی پی ساڑھے تین فیصد رہے گی۔ آئی ٹی سیکٹر میں بہت صلاحیت ہے، بڑی جلدی آئی ٹی کے حوالے سے اسپیشل زون کے قیام پر کام ہوگا۔ ایک ہزار ارب روپے سالانہ پاور سیکٹر پر سبسڈی نہیں دے سکتے اور نہ دینی چاہیے، اس شعبے کو دیکھ رہے ہیں کوشش ہے بہتری ہو۔انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے وہ اگر اس پر کچھ کرسکے تو دیکھ سکتی ہے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ ائیرپورٹ آؤٹ سورس کرنے پر کام کررہے ہیں، 12 کمپنیاں اس عمل میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ توقع ہے جولائی میں ایک ائیرپورٹ کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے بڈز مانگ لی جائیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پٹرول اسکیم 800 سی سی تک والی گاڑیوں کیلئے تھی لیکن ہم کیونکہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے پراسیس میں ہیں اس لیئے یہ کسی جگہ ہضم نہیں ہورہی جس کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے،  بزنس اور زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سکیورٹی بڑھےگی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے، وزیراعظم کےکسان پیکج کے بعدگندم کی پیداوار میں کافی فرق نظر آیا، زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر شفٹ کرنا ضروری ہے، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنےکے لیے 30 ارب روپے رکھے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے، زرعی قرض کے لیے 2250 ارب روپے  رکھے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، بیجوں  کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سولر پاور کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کے لیے 35ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کی سہولت یوٹیلیٹی اسٹورز  پر ہوگی، پاکستان میں یوریا کھاد کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے، ملک میں یوریا کی مقامی پیداوار  بڑھانےکے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سستے قرض فراہم کریں گے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر  بڑھانےکے لیے نئے اقدامات کریں گے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن اداروں میں کم سے کم اجرت نہ دینے کی شکایت ہوگی حکومت اس پر حرکت میں آئے گی، کم از کم اجرت کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا چاہیے۔  بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض حکومت ادا کرےگی، 50 ہزار تک کیش نکلوانے پر سابق حکومت نے 0.6 فیصد ٹیکس ختم کیا جو کہ  نہیں ختم کرنا چاہیے تھا۔سالانہ 24 ہزار ڈالرز  آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، سالانہ 50  ہزار  ڈالر بھیجنے والے اوورسیز  پاکستانیوں کو مراعات دی جائیں گی، ان کے لیے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جائےگا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار  کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے زرعی شعبے کو ٹیکس کی چھوٹ دی ہے، مراعات کا مقصد ملک میں زرعی انقلاب لیکر آنا ہے۔زرعی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو رعایتی قرض دیا جائے گا۔کسانوں کو یوریا کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں اگر حکومت کو یوریا درآمد کرنا پڑی تو اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ہمارا چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار کمزور ہے اس لیےایس ایم ایز کے قرضوں کی ادائیگی میں حکومت مدد کرے گی۔ایس ایم ایز کیلئے ریٹنگ ایجنسی بنائی جائے گی۔