ایک نیوز:سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ۔جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ بڑے بینچ کا فیصلہ چھوٹے بینچز تبدیل نہیں کرسکتے، اس کیس کو 9 رکنی لارجر بینچ کو سننا چاہیے تھا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے 23 اکتوبر 2023 کو مختصر حکمنامہ سنایا تھا، 5 رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر اکبر نقوی بھی بنچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ 125 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلہ بنچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941 کے ایک جملے سے کی ، لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہورزمانہ تقریر میں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔
23 اکتوبر 2023 کو سنایا گیا مختصر فیصلہ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ سے بنیادی حقوق سے متعلق سوال پوچھا گیا، سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ کیا آئین کے تحت سویلینز کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آئین کیا کہتا ہے، درخواست گزاروں نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر عدالت کی رائے مانگی۔
آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات پر وضاحت
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات پر اہم وضاحت کر دی، کالعدم دفعات کے تحت ماضی میں ہو چکے فیصلوں پر اثر نہیں پڑے گا، جن سزا یافتہ افراد کی اپیلیں زیر التوا ہیں وہ متعلقہ فورم پر سزاؤں کی قانونی حیثیت کا معاملہ اٹھا سکیں گے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کا ایک سیکشن 1967 میں اس وقت شامل ہوا جب ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، کرنل ریٹائرڈ ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اس وقت ملک میں عبوری آئین تھا، 9 اور 10 مئی کے دو دنوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے ، شہدا کے مجسموں کو نقصان پہنچا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا، اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا، سب کی ایک ہی متحد آواز تھی کہ ایسے واقعات پر قانون حرکت میں آنا چاہیے ، اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں، فوجی حکام نے متعلقہ دہشت گردی کی عدالتوں سے رجوع کر کے متعلقہ ملزمان کی حوالگی مانگی، نتیجے میں 103 ملزمان کو فوجی عدالتوں کی حراست میں دیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ
تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، انہوں نے 48 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ریاست کے تینوں ستونوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے،عدلیہ کی آزادی کیلئے ضروری ہے وہ ایگزیکٹو کے زیر اثر نہ ہو،آفیشل سکرٹ ایکٹ مقدمات کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں ہی ہوتا ہے،9 مئی کے گرفتار 103 ملزمان پر آفیشل سکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آفیشل سکرٹ ایکٹ کی دفعات نہ ہونے کے باوجود ملزمان کو عسکری حکام کی حوالگی کی درخواستیں دی گئیں،متعلقہ مجسٹریٹ کو ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے بامعانی فیصلہ دینا چاہئے تھا، اٹارنی جنرل نے ان ممالک کی مثالیں دیں جہاں سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے،جمہوریت اور آزادی کی خاطربہتر ہوتا اٹارنی جنرل ان ممالک کی مثال دیتے جہاں ایسا نہیں ہوتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا 9 مئی کے ملزمان عام شہری ہیں،اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی 9 مئی کے بیشتر ملزمان بری ہو جائیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری
جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ 9 مئی ملزمان کا سول عدالتوں میں قانون کیمطابق ٹرائل ہونا چایئے، ایسے کوئی شواہد نہیں کہ مظاہرین نے دفاع پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق آئین دو صورتوں میں چلتا ہے، ایک امن کے اور دوسرا ایمرجنسی کے زمانے میں، ایمرجنسی کا نفاذ آرٹیکل 232 کے تحت ملک کو درپیش خطرات کی صورت میں ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں ایسے وقت میں شامل کی گئیں جب ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ملک میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے کی گئی ترمیم بھی 2019 میں ختم ہوچکی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1) ڈی ٹو کا حوالہ دیا اور کہا ہے کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 2892 مرد و خواتین گرفتار ہوئے، 103 مرد ملزمان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا، اس کیس کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کو سننا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ 13 دسمبر2023 کو سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینےکا فیصلہ معطل کیا تھا۔