ایک نیوز: بائیڈن کی قانونی ٹیم کوگزشتہ سال نومبر میں واشنگٹن کے پین بائیڈن سینٹر سے تقریباً 10 فائلیں ملی تھیں، جنہیں نیشنل آرکائیوز کے حوالےکر دیا گیا ہے۔
پین بائیڈن سینٹر وائٹ ہاؤس سے ایک میل دور واقع ایک تھنک ٹینک ہے جہاں 2017 سے 2020 کے دوران بائیڈن کا آفس تھا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہےکہ امریکی محکمہ انصاف صدر بائیڈن کے سابق دفتر سے ملنے والی ممکنہ طور پر خفیہ دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے۔
خیال رہےکہ امریکی صدر بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد خفیہ دستاویزات اپنے ساتھ لے جانےکے الزامات میں تحقیقات کا سامنا ہے۔
ٹرمپ کےگھر سے حساس دستاویزات برآمد ہونےکے بعد اپنے ردعمل میں بائیڈن نےکہا تھا کہ 'کیا کوئی اتنا غیرذمہ دار بھی ہوسکتا ہے؟'
امریکی میڈیا کے مطابق امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی بھی پین بائیڈن سینٹر سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کی تحقیقات میں شامل ہے، اس سلسلے میں امریکی اٹارنی جنرل کو کاغذات کا جائزہ لینےکے لیے بھی کہا گیا ہے۔
صدر بائیڈن کے وکیل کا کہنا ہےکہ یہ دستاویزات اس وقت کی ہیں جب بائیڈن نائب صدر تھے، تاہم یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ یہ کس قسم کی دستاویزات ہیں،کتنی حساس ہیں اور بائیڈن کے سابق آفس میں کیا کر رہی تھیں؟
ذرائع نے امریکی ٹی وی کو بتایا ہےکہ دستاویزات میں جوہری معلومات نہیں اور یہ پین بائیڈن سینٹر میں ایک ڈبے میں دیگر عام کاغذوں کے ساتھ پڑی ہوئی تھیں۔
امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی نے اس حوالے سےکہا ہےکہ دستاویزات ملنے کے بعد سے امریکی صدرکے وکیل نیشنل آرکائیوز اور محکمہ انصاف سے مکمل تعاون کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ دستاویزات ملنےکے واقعےکو تقریباً 2 ماہ بعد کیوں سامنے لایا جا رہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب مڈٹرم الیکشن بھی سر پر ہیں۔