نوٹیفیکیشن کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری ظفر نصر اللہ کمیٹی کے کنوینئر ہوں گے، سیکرٹری ٹو حکومت پنجاب علی سرفراز، اسد گیلانی، ایڈیشنل آئی جی فاروق مظہر ممبران بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
کمیٹی متعلقہ پہلوؤں کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گی کہ آیا پی ایم ڈی نے مری کے متعلق متعدد الرٹ جاری کیے، کیا متلعقہ اداروں ضلعی انتظامیہ، پولیس، ٹریفک پولیس، سی اینڈ ڈبلیو، این ایچ اے، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے نے بحرانی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائی؟
کمیٹی جائزہ لے گی کہ کیا مری کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے کوئی اشتہاری مہم چلائی گئی، کیا مری میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی گنجائش کے مطابق جانچ پڑتال کی گئی، گاڑیوں کی تعداد بڑھنے پر اسلام آباد اور گلیات کے مقام سے گاڑیوں کو داخلے سے کیوں نہیں روکا گیا۔
کمیٹی دیکھے گی کہ کیا برف ہٹانے، گاڑیاں اٹھانے کی مشینری اور ٹریفک پولیس کو تعینات کیا گیا تھا؟ ایمرجنسی اداروں کے ساتھ ہنگامی حالات میں رابطے کے لیے کوئی کنٹرول قائم کیا گیا تھا؟ مقامی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس سے ہنگامی حالات میں سیاحوں کو سہولیات کے حوالے سے حکمت عملی طے کی گئی؟
کمیٹی یہ بھی جائزہ لے گی کہ برفانی طوفان کے دوران آپریشن کی افادیت کیا تھی، لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر امداد کیوں نہ دی جا سکی، کون سے محرکات کرائسز کی وجہ بنے، اس سارے کرائسس میں کن افسران کی کیا کمی اور کوتاہیاں تھیں؟کمیٹی سات دن کے اندر اپنی رپورٹ مرتب کرے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 8 لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب عثمان بزدار نے مری کے برفباری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سانحے کے ذمے داروں کے تعین کے لیے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی جب کہ مر ی کوضلع کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مری میں 2 نئے تھانوں اور 2 پارکنگ پلازے بنانے کی منظوری دی گئی، عثمان بزدار نے مری میں اوور چارجنگ کرنے والے ہوٹلوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا۔