اللہ کے حکم کی بجا آوری عبادت ہے، لیکن عبادت صرف حکم کی تعمیل تک محدود نہیں ہے ، بلکہ یہ عبد (بندہ) اور معبود (اللہ) کو ملانے کا ایک ذریعہ بھی ہے، عابد کا تعلق معبود سے ہے اور عبادت کا تعلق روح سے ہے، جیسے ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا عبادت ہے، ویسے ہی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی عبادت ہے۔
عبادت ظاہری اعمال کی شکل میں ہوتی ہے، لیکن اس کا تعلق باطن سے ہوتا ہے، اگر باطن خاموش ہو اور ظاہر شور مچا رہا ہو، تو ایسی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم عبادت اُس کی کرتے ہیں جسے سجدوں کی ضرورت نہیں،وہ عطا کرنے والا ہے جو کسی کو محروم نہیں رکھتا، سجدہ ہر کوئی نہیں کرتا، پھر بھی وہ سب کو نوازتا ہے، کیونکہ عبادت ہی وہ ذریعہ ہے جو عبد کو معبود تک پہنچاتی ہے۔
تعلق کا قائم رہنا ہی صراط مستقیم کی نشانی ہے، عبادتیں تسبیح اور رسوم سے مشروط نہیں، بلکہ نیتوں کی پابند ہوتی ہیں، اگر نیتوں میں کھوٹ ہو، تو برسوں کی ریاضت بھی دھکار دی جاتی ہے، اسی لیے عبادت میں بدلہ نہیں مانگا جاتا، بلکہ قبولیت کی دعا کی جاتی ہے اور قبولیت وہ ہے جو منظورِ نظر ہو، منظورِ نظر وہ ہے جو شعور اور عقل کی بنیاد پر ہو، عقل وہ ہے جو کسی کی تابع ہو، اور تابع وہی ہوتا ہے جو نظر میں ہو۔
اس لیے خلقِ خدا کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھو تاکہ تم ہمیشہ قائم رہ سکو، عبادت کا مقصد صرف ظاہری اعمال نہیں، بلکہ اللہ کے ساتھ ایک گہرا اور مضبوط تعلق قائم کرنا ہے، یہ تعلق ہی ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے اور ہماری زندگی کو حقیقی معنوں میں کامیاب بناتا ہے۔
تحریر:اریج زہرا