ایک نیوز : بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے مقدار میں لیتھیئم ذخائر کی اہم دریافت کا اعلان کیا ہے، جو کہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے نایاب معدنیات ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لیتھیئم کے 5.9 ملین ٹن کے ذخائر کی دریافت کی گئی ہے۔اب تک انڈیا آسٹریلیا اور ارجنٹینا سے لیتھیئم درآمد کرتا رہا ہے۔
یادرہے لیتھیئم مختلف سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کی ری چارج ایبل بیٹریوں سمیت دیگر برقی آلات میں استعمال ہونے والا کلیدی مواد ہے اور یہ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت انڈیا کو گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں اور سنہ 2030 تک ملک میں الیکٹرک کاروں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
لیتھئیم کہاں سے ملا ؟
بھارت کی وزارت کان کنی کا کہنا ہے کہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے لیتھیئم کے یہ ذخائر جموں و کشمیر کے ضلع رئیسی کے علاقے سلال ہیمانا سے دریافت کیے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں جنوبی ریاست کرناٹکا سے بھی لیتھیئم کے چھوٹے ذخائر دریافت کیے گئے تھے۔
دنیا بھر میں ممالک موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کے لیے کاربن اخراج سے پاک اقدامات اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے میں لیتھئیم جیسی نایاب دھاتوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
لیتھئیم کے سب سے زیادہ ذخائر کہاں ؟
سنہ 2023 میں چین نے بولیویا کے لیتھیئم ذخائر کو وسعت دینے کے لیے ایک بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ 21 ملین ٹن کے ذخائر ہیں اور یہ دنیا میں سب سے بڑے ہیں۔
لیتھئیم کو کیسے نکا لا جاتا ہے
ورلڈ بینک کے مطابق سنہ 2050 تک عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے اہم معدنیات کی کان کنی میں پانچ سو فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ لیتھیئم کی کان کنی کا عمل ماحول دوست نہیں ہے۔
لیتھیئم کو سخت چٹانوں اور زیر زمین نمکین پانی کے ذحائر سے نکالا جاتا ہے جو کہ آسٹریلیا، چلی اور ارجنٹینا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
جب اس معدنیات کو نکال کیا جاتا ہے تو اسے فوسل فیول کے ساتھ جلایا جاتا ہے اور یہ زمین پر نشان چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو نکالنے کے عمل میں بہت زیادہ پانی کا استعمال ہوتا ہے اور اس سے ماحول میں بڑی تعداد میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اخراج ہوتا ہے۔