ایک نیوز: سوار محمد حسین 18 جنوری 1949ء کو گوجر خان میں پیدا ہوئے۔ محمد حسین اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، خودداری، دلیری، محنت، غیرت اور سب سے بڑھ کر وطن سے محبت انہیں وراثت میں ملی تھی۔
سوار محمد حسین اپنی جان وطن پر قربان کرنے اور دشمن سے لڑنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ یوں ستمبر 1966ء میں محمد حسین بحیثیت سوار (ڈرائیور) پاک فوج میں شامل ہوئے۔ سوار محمد حسین نے ایک ڈرائیور ہونے کے باوجود رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کردیا کیونکہ انہیں گوارا نہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے دور محفوظ جگہ پر بیٹھ کر محض ڈرائیور کی ڈیوٹی کرے۔
ارض پاک کے اس دلیر سپوت نے کئی مشکل مواقع پر تن تنہا دشمن کے ٹھکانوں اور پوزیشن کا سراغ لگایا بلکہ رضا کارانہ طور پر بار بار موت سے کھیلتے ہوئے دشمن کے حملوں کو ناکام بنانے میں لازوال کردار ادا کیا۔ سوار محمد حسین نے اپنی خواہشات جذبات اور سب رشتوں کو ارض پاک کی محبت پر قربان کردیا۔
3 دسمبر 1971ء کو جمعہ کے دن جب جنگ شروع ہوئی تو سوار محمد حسین شکرگڑھ کے علاقے میں تعینات تھے جبکہ پاک فوج کی ایک ٹینک رجمنٹ کا مقابلہ بھارت کی آٹھ ٹینک رجمنٹس سے تھا۔ محاذ جنگ میں سوار محمد حسین کی ذمہ داری یہ تھی کہ ٹینک رجمنٹ کے ساتھ موجود رائفل ٹروپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے۔
5 دسمبر کو سوار محمد حسین اپنے کمانڈنگ آفیسر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ''سر مجھے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ اسلحہ فراہمی کا فریضہ اور لڑنے کی اجازت دی جائے کیونکہ میرے لئے یہ ناقابلِ برداشت ہے کہ میں میدان جنگ سے دور محفوظ جگہ پر خاموشی سے اپنی گاڑی میں بیٹھا رہوں''۔
7 دسمبر کو دشمن کی گدر پور پر قبضے کی اطلاع ملی، فائرنگ کی آوازیں آنے پر ٹروپ لیڈر صورتحال کا جائزہ لینے روانہ ہوئے۔ ٹروپ لیڈر کو گدر پور پہنچنے پر حیران کن منظر دیکھنے کو ملا، گدر پور سوار محمد حسین کے قبضے میں تھا اور دشمن کی نفری کو چاروں جوان بھگا چکے تھے۔ گدر پور کے معرکے میں سوار محمد حسین کی بروقت اطلاعات نے دشمن کا بیشمار اسلحہ اور درجنوں ٹینکس راکھ کا ڈھیر بنا دیے۔
سرکاری بیان کے مطابق صرف 16 ٹینکس سوار محمد حسین نے تباہ کئے۔ 8 دسمبر کو سوار محمد حسین نے اپنے ساتھی کے ہمراہ ہڑر کلاں گاؤں میں دشمن کے ممکنہ حملے کو بھانپتے ہوئے دشمن کے توپ خانوں پر فائر کروائے اور دشمن کو اس مقام سے منتشر کر دیا۔ سوار محمد حسین وقتاً فوقتاً ہر مورچے میں جاتے اور نعرے لگا کر ساتھی جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے۔
یہ سوار محمد حسین کا کارنامہ ہی تھا کہ دشمن ٹینک آگے بڑھنے کی بجائے ایک دوسرے کے پیچھے تباہ ہو رہے تھے۔ افسران سوار محمد حسین کی بہادری، بے خوفی، دلیری اور کارناموں سے حد درجہ متاثر تھے اور گزارش کر چکے تھے کہ یہ جوان ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز کا مستحق ہے۔
ہر چیز سے بے نیاز محمد حسین وطن عزیز کے دفاع میں مصروف تھے کہ ایک چھپے ہوئے بھارتی ٹینک سے مشین گن کا برسٹ سوار محمد حسین کے سینے سے پار ہو گیا۔ ساتھیوں کے قریب آنے پر سوار محمد حسین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ''دشمن کہاں ہے؟ آگے تو نہیں آرہا؟'' ان الفاظ کے ساتھ یہ دلیر اور معجزہ صفت کرشماتی جوان مسکراتے ہوئے وطن کی آن پر قربان ہوگیا۔
سوار محمد حسین شہید کو بعد از شہادت ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔