ایک نیوز نیوز: چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کا کہنا ہے اگر 24 جولائی کو بلدیاتی الیکشن ہوتے تو ٹرن آؤٹ ایک فیصد بھی نہ ہوتا۔
بلدیاتی انتخابات کے جلد انعقاد سے متعلق جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ نے کی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ پیشگوئی کے حساب سے 24 جولائی کو شہر میں موسلادھار بارش ہوئی، ہر طرف شور مچ رہا تھا کہ شہر ڈوب رہا ہے، اگر اسی دن الیکشن ہوتا تو ٹرن آؤٹ ایک فیصد بھی نہ ہوتا۔
جسٹس احمد علی شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہ رہے ہیں کہ اسی دن الیکشن ہونا چاہیے تھا؟
جماعت اسلامی کے وکیل زاہد خان نے کہ جو ہوگیا سو ہوگیا، 24 جولائی سے پہلے بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران کو بھیج دیے گئے تھے، ان بیلٹ پیپرز کا کیا بنا کسی کو معلوم نہیں۔
وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب سیاسی جماعت کے رہنما ہیں، مرتضیٰ وہاب سرکاری مشینری سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں حالانکہ مرتضیٰ وہاب سرکاری مشینری پارٹی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔
جماعت اسلامی کے وکیل زاہد خان کا کہنا تھا سندھ حکومت جان بوجھ کر حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ تاخیر کا شکار کر رہی ہے، بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو اس حوالے سےکوئی پرواہ نہیں ہے۔
وکیل درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے نئے بیلٹ پیپرز چھپوائے جائیں اور مرتضیٰ وہاب کی جگہ غیر جانبدار ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی کی درخواست پر الیکشن کمیشن، چیف سیکرٹری سندھ، سیکریٹری بلدیات اور دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔