ایک نیوز: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ میں 2014 سے آپ کا ہمسایہ ہوں،کبھی پیدل جاتا ہوں گرمیوں میں زیادہ مشکل ہوتی ہے،ہمیشہ سوچا اندر کیا ہوتا ہے،آپ نے پہلی دفعہ ہمیں یاد کیاتو ہم حاضر ہو ااس لئے نہیں کہ میں کوئی سیاسی تقریر کرنا چاہتا ہوں،اس لئے کہ میں اپنی اور اپنے ادارے کی طرف سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس کتاب کے ساتھ کھڑے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے،یہ کتاب ہماری پہچان ہے،یہ کتاب پاکستان کی پہچان ہے،اس کتاب کو اس وقت کے منتخب قیادت نے باہمی اتفاق سے ووٹ کیا،کوئی نیگٹیو ووٹ نہیں تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اس کی اہمیت کو ہمیں پہنچاننا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے ، آپ سب لوگ سیاسی طالبعلم ہیں،میں قانون کا کیڑا ہوں میں قانون کے طریقے سے چیزیں دیکھتا ہوں آپ سیاست کے طریقوں سے ، سیاست آپ کا میدان ہے میرا نہیں،قانون میرا میدان ہے، آپ تبصرے کر سکتے ہیں، تنقید بھی ہم پر کر سکتے ہیں اور تنقید ہم نے سنی بھی،مگر ہم حلف اٹھاتے ہیں۔میں نے دو مرتبہ حلف اٹھایا ۔ایک مرتبہ چیف جسٹس بلوچستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔مجھے اس وقت کے چیف جسٹس نے بلایا تو معلوم نہیں تھا کیوں بلایا گیا,یہاں معلوم ہوا کہ وہاں آئینی بحران ہے اس لئے بلوچستان چلے جائیں,
میں اکیلا جج تھا جو وہاں گیا اور ججز تقرر کئے پھر یہاں آگئے،ہم بعض اوقات دشمنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنا اپنوں سے کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ہم سب کا وجود ایک ہی ہونا چاہیئے کہ لوگوں کی خدمت کریں،ہم جلد فیصلے کریں اور آپ کا کام ہے اچھے قوانین بنیں،میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ سیاسی باتیں تو نہیں ہونگے تو کہا گیا نہیں آئینی باتیں ہونگی لیکن سیاسی باتیں ہوئیں، خیر کل کیسز ہونگے آپ کے خلاف بھی آئیں گے،میرے والد مسلم لیگ کے سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے،جب تحریک پاکستان چل رہی تھی اس وقت کوئی مفاد نہیں خواب تھااور اگر یہ خواب نہ پورا ہوتا تو ہم ایک اقلیتی معاشرے میں ہوتے،پھر دیکھیں کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بنا مگر ہم نے شرف کھو دیا،آج اسلامی دنیا کا سب بڑا ملک انڈونیشیا ہے،میرے والد مولوی تمیز الدین کیس میں بھی شامل رہے، اور سندھ کورٹ نے حق میں فیصلہ دیا مگر پھر فیڈرل کورٹ میں چیلنج ہوگیا،سندھ میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں نے حق میں فیصلہ دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہاکہ فیڈرل کورٹ میں بھی ایک اقلیتی رکن نے سندھ کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی،اقلیتی لفظ مجھے پسند نہیں ہے وہ ہمارے برابر کے شہری ہیں،اگر مولوی تمیز الدین والے کیس میں جوکچھ ہوا وہ نہ ہوتا تو کیا پاکستان دولخت ہوتا؟ایک قانون دان کی حیثیت سے یہ سوال میں آپ کے پاس چھوڑ کر جارہا ہوں،افسوس کی بات ہے کہ ہم دستور پاکستان کو نصاب میں پڑھاتے تک نہیں ہیں،ہم بھی آئین کے محافظ ہیں اور ہم نے حلف لیا ہے کہ دستور کا تحفظ کریں گے،میں یہ نہ کرپاؤں تو بے شک تنقید کریں لیکن ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہاں جتنی تقاریر کی گئیں ان سے متفق نہیں ہوں،کل اگر یہاں بیٹھے افراد کیخلاف فیصلہ آجائے یا آپ آجائیں اور کہیں ہم نے تو آپ کو بلایا تھا پھر ہمارے خلاف فیصلہ آئے۔ہم دستور کیساتھ کھڑے رہیں گے اور اسی کے مطابق کام کریں گے۔