ایک نیوز: سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہبازشریف کو اپوزیشن سے مذاکرات کی تجویزدیدی، سابق صدر نے کہاکہ شہبازشریف سے درخواست کروں گا اپوزیشن سے مذاکرات کریں، مذاکرات میں آنے سے قبل شرائط نہ رکھی جائیں،اپوزیشن کو مذاکرات کیلئے شہبازشریف کے پاس آنا ہوگاکیونکہ وہ وزیراعظم ہیں۔
تفصیلات کے مطابق آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے جمہوریت بحال کی تھی، سیاست کے 35 سالہ سفر میں بہت سے نشیب وفراز دیکھے،بھٹو صاحب کو ڈی سیٹ کیاگیا،جو خواب ذوالفقار بھٹو اور دیگر قائدین نے دیکھا وہ پورا نہ ہوسکا،ان کاکہناتھا کہ ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں،پاکستان کو بچانے کا فرض بھی ہم پر ہے، اللہ نے چاہا تو آئین کو کچھ نہیں ہوگااور نہ ہم ہونے دیں گے۔
سابق صدر نے کہاکہ میں نے اپنے خلاف سوموٹو دیکھے ہیں،ہمارے خلاف کچھ ہے تو چارج کریں،بینظیر بھٹو شہید کو بھی جیل میں ڈالا گیا،میں نے جیل کے باتھ روم سے کیمرے پکڑے، جج صاحبان کو درخواست دی،ان کاکہناتھا کہ جب رات کو جیل کھولا جاتا ہے اس وقت تو سوموٹو نہیں ہوتا۔
آصف زرداری نے کہاکہ سب سیاسی طاقتوں نے ملکر صوبوں کے حقوق کی بات کی،ہم نے کبھی مذہب کو سیاست کیلئے استعمال نہیں کیا،کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان دیوالیہ ہوا،انڈیا کے پاس ایک زمانے میں ایک بلین ڈالر ریزرو تھے،آج انڈیا کے پاس660 بلین ریزرو ہیں،ان کاکہناتھا کہ جب تک دم میں دم ہے جمہوریت کو بنائیں گے سنواریں گے،کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان دیوالیہ ہوا۔
سابق صدر نے کہاکہ شہبازشریف سے درخواست کروں گا اپوزیشن سے مذاکرات کریں، مذاکرات میں آنے سے قبل شرائط نہ رکھی جائیں، اپوزیشن کو مذاکرات کیلئے شہبازشریف کے پاس آنا ہوگاکیونکہ وہ وزیراعظم ہیں۔
وزیراعظم کو اپوزیشن سے بات کرنی چاہئے مگر حزب اختلاف کو آنا پڑے گا,مذاکرات کے لئے کوئی میرے پاس نہ آئے بلکہ وزیراعظم کے پاس جائے کیونکہ وہ اتھارٹی ہے, مذاکرات غیر مشروط ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کہیں میری بات مانیں گے تو بات کرونگا نہیں تو نہیں کرونگا,ان کے پاس ایک سابق جماعت کی طرح پیڈ ورکر، پیڈ صحافی اور پیڈ سوشل میڈیا ورکرز ہیں,ان کی اپنی تو کوئی جاگیر نہیں تھی بتائیں نا! کہاں تھی نیازی جاگیر ۔ہم نے 14 سال قید میں پڑھا، سوچا اور عمل کیا، پاک چین اقتصادی راہداری ایسے ہی نہیں سامنے آئی.
آصف زرداری کہا کہ 500 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری چین کی میں یہاں لایا، یہ کوئی قرض یا امداد نہیں تھی مگر پھر اس کے بعد ایک چیف صاحب نے کہاکہ ہم بنائینگے ، ہم نے کہا بسم اللہ بن جانی چاہیئے،اس کے بعد ایک چیف صاحب نے گوادر پورٹ پر سٹے دیدیا پھر اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا۔