ایک نیوز: نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حمل کے دوران پینے کے پانی میں لیتھیم کی زیادہ مقدار حاملہ خواتین کے بچوں میں آٹزم (Autism) کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس (UCLA) کے ماہرین کی جاما پیڈیاٹرکس نامی جرنل میں شائع تحقیق میں پہلی مرتبہ قدرتی طور پر پانی میں موجود لیتھیم کے آٹزم کا سبب بننے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تحقیقی ٹیم کی سربراہ یو سی ایل اے کے ڈیوڈ گیفن اسکول آف میڈیسن کی پروفیسربیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ پینے کے پانی میں انسان کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہونے والی آلودگیوں کی سخت جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ مادوں اور پانی میں قدرتی طور پر موجود لیتھیم بچوں کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہو کر ان میں آٹزم کا شکار ہونے کا خطرہ پیدا کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر بیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ لیتھیم بیٹریوں کو تلف کرنے کیلئے زمین میں دبانے یا کہیں پھینک دینے سے لیتھیم کے زیر زمین پانی میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس سے مستقبل میں لیتھیم سے آلودہ پانی کا مسئلہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیق ڈینمارک کے ہائی کوالٹی ڈیٹا پر مشتمل ہے، تحقیق کیلئے ڈاکٹر بیئٹ رٹز اور ڈینمارک کے محققین کی جانب سے ڈینمارک میں 1997 سے لیکر 2013 تک پیدا ہونے والے بچوں اور ان میں سے ذہنی امراض کا شکار ہونے والے بچوں کے ڈیٹا اور ملک کے نصف حصے کو پانی مہیا کرنے والے 151 واٹر ورکس کے ڈیٹا میں لیتھیم کی مقدارکا جائزہ لیاگیا۔
تحقیق کے دوران 63 ہزار سے زائد بچوں کے میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا جس دوران 12 ہزار 799 بچوں کے آٹزم کا شکار ہونے کے شواہد سامنے آئے۔
واضح رہے کہ یورپی ممالک میں ڈینمارک کو ایسا ملک شمار کیا جاتا ہے جہاں لوگ پینے کیلئے بوتل کے پانی کے بجائے زیادہ تر کھلے پانی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ملک میں پینے کے پانی میں شامل اجزا کا تجزیہ کرنے کیلئے بھی باقائدہ ایک منظم طریقہ کار موجود ہے۔