ایک نیوز: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یقینا ہر ادارہ میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن دیکھا جائے کیا پہلے سے بہتری اور شفافیت آئی ہے،مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کرینگے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا ،اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اسکا مطلب ہے شفافیت آئی ہے، پہلے چیف جسٹس جمعرات کا کاز لسٹ منظوری دیتے تھے ، کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا اب یہ چیف جسٹس کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے،اب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی رجسٹرار کا کام ہے مقدمات کوسماعت کیلئے مقرر کرنا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلا کام بطور چیف جسٹس فل کورٹ بلانا ہی کیا تھا اس سے پہلے چار سال تک ہم سب ججزایسےملے ہی نہیں تھے ،اس میٹنگ میں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ مفاد عامہ کے مقدمات براہ راست نشر ہوں گے۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عام طور پر عوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو کوئی ٹی وی چلائے یا یوٹیوبر دکھائے ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں ،عوام خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہم میں شفافیت ہے یا نہیں، سب سے پہلا مقدمہ بھی فل کورٹ کا تھا فل کورٹ 2015 کے بعد سے تشکیل دی ہی نہیں گئی تھی ہم نے مقننہ کے بنائےقانون کا جائزہ لینے کیلئےفل کورٹ بٹھائی ،دس ججز نے اکثریتی فیصلہ دے کر اس قانون کو بحال کیا ۔
انہوں نے کہا کہ پہلا کیس پی ٹی وی سے نشر ہوا اب ہم یوٹیوب سے کرتے ہیں مقننہ کا فیصلہ تھا کہ سب اختیارات چیف جسٹس کے پاس نہ ہوں ہم نے اس قانون کو سراہا اور بحال کیا جو لوگ یہاں سے چلے گئے ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا مگر کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ،ماضی میں بنچ کی تشکیل سے لوگ کہتے تھے پتہ چل گیا فیصلہ کیا ہو گا آج مجھے بھی نہیں پتہ ہوتا میرے دائیں بائیں والے ججز کیا فیصلہ دیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ وکلا آج جائزہ لیں کیا آج بھی وہ بنچ کی تشکیل سے فیصلہ سمجھ لیتے ہیں؟ اگر اب ایسا نہیں ہے تو مان لیں شفافیت آئی ہے ،ماضی میں چیف جسٹس کو کاز لسٹ منظوری کیلئے بھیجی جاتی تھی، میں نے یہ چیز بدل دی، اب مجھے کاز لسٹ نہیں بھیجی جاتی اب کاز لسٹ بنانا رجسٹرار صاحبہ کا ہی اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کو وزن دیں گےیا نہیں یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے تیس چالیس سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ اس کا کیس کہاں لگ گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پرانے صحافی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا اب مقدمات چیف جسٹس نہیں لگاتا کمیٹی لگاتی ہے تبصرہ کیجیے لیکن سچ بولیے سچ بتائیے مفروضہ پر نہیں آپ کی ذمہ داری کہ سچ آگے پہنچائے ،یہ بات میں بطور جج نہیں کہہ رہا ،عرصہ دراز سے بیٹھتے ڈیپوٹیشنٹ کا ان کے اداروں میں واپس بھیجا گیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور جج یہ میرا پہلا اقدام تھا کہ ڈیپوٹیشنٹ کو واپس بھیجا قانون ایک مدت سے زیادہ ڈیپوٹینیشنٹ کو قیام کی اجازت نہیں دیتا ،ڈیپوٹینشت کی وجہ سے سپریم کورٹ کے اپنے ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشنٹ کے جانے پر سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کو ترقی ملی عوام چاہتے ہیں کہ ان مقدمات جلد لگے اور ان کے پیسوں کی فضول خرچی نہ ہو ، چیف جسٹس کی 3ہزار سی سی مرسڈیز بینز کو لوٹا دیا گیا، حکومت سے کہا اس کو فروخت کرکے عوام کو پبلک سروس فراہم کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے صحافی کے سوال پر جواب دیا کہ وزیر قانون کو کہا تھا کہ میرے لیے ایسا کچھ نہ کریں، چیف جسٹس نے ایکسٹینشن لینے سے صاف انکار کردیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے بھی عدالتی سال کے ریفرنس سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے اپنوں فیصلوں سے جوہری اقدار و پارلیمنٹ کو مضبوط کیاہے، نظام انصاف کے کچھ شعبوں میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، چیمبر میں سماعتوں کی روایت کی بحال کرنے کی ضرورت ہے ،کئی اہم مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ ہونا سائلین کیلئے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔