ایک نیوز : پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی بی) نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں کچے کے ڈاکو اغوا برائے تاوان کے ذریعے سالانہ ایک ارب روپے بٹور رہے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ (شمالی سندھ: پائیدار حل کی تلاش) میں ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2022 کے دوران 300 افراد کو تاوان کی خاطر کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا۔ انڈیپینڈ نٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی گھوٹکی نے مزید بتایا کہ شمالی سندھ کے کچے میں موجود ڈاکو اغوا برائے تاوان کے ذریعے سالانہ ایک ارب روپے حاصل کرتے ہیں۔
یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گھوٹکی، میر پور ماتھیلو، کندھ کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ اور کراچی پولیس، صحافیوں، وکلا اورسماجی رہنماؤں سے انٹرویوز کر کے تیار کی ہے۔
ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی، وائس چیئرپرسن سندھ قاضی خضر حبیب، کونسل رکن سعدیہ بخاری، ایچ آر سی پی کے شریک چیئرپرسن اسد اقبال بٹ اور انسانی حقوق کے سینیئر کارکن امداد چانڈیو شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے دائیں جانب کشمور سے دادو ضلعے تک اور بائیں جانب گھوٹکی سے مورو تک لگنے والے کچے میں تاوان کے لیے اغوا کرنے اور دیگر جرائم میں ملوث مجرم پیشہ افراد کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ڈاکو لوگوں کو ہائی وے سے اغوا کرنے کے علاوہ 'ہنی ٹریپ' ( فون پر خواتین کی آواز میں لوگوں کو بلا کر اغوا کرنے) کے ساتھ سوشل میڈیا پر سستی اشیا بیچنے کا جھانسہ دے کر خریداروں کو بھی اغوا کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈاکو جدید فوجی گریڈ کے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایچ آر سی پی کے مشن کو یہ تشویش ناک اطلاعات بھی ملیں کہ گھوٹکی، کندھ کوٹ اور لاڑکانہ میں مقیم صحافی قتل کی دھمکیوں، اغوا، حملوں اور من گھڑت مقدمات کی وجہ سے بااثر افراد کے خلاف رپورٹنگ کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
لاڑکانہ کے دورے کے دوران مشن کو معلوم ہوا کہ جبری گمشدگیوں کی اطلاعات بہت زیادہ ہیں۔متاثرین کے اہل خانہ نے یہ بھی بتایا کہ جب انہوں نے ایسے واقعات کی اطلاع دی تو کئی بار انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں۔