ایک نیوز: سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا ڈیمز فنڈ کیس کی سماعت ہوئی،لیگل ایڈوائزر سٹیٹ بنک کا کہنا تھا کہ ڈیمز فنڈ میں اس وقت ٹوٹل 23ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے، فنڈ میں آنے والی رقم 11 ارب جبکہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔
چیف جسٹس نے سٹیٹ حکام سے استفسارکرتے ہوئے کہا کہ مارک اپ کون ادا کرتا ہے؟جس پر ایڈ یشنل آڈیٹر جنرل کا کہنا تھا کہ مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے، ڈیمز فنڈ کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے؟جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے کہ11ارب روپے بڑھ کر23 ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے،کیا سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم رکھ سکتی ہے؟، سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟۔
ایڈیشنل آڈیٹر نے کہا کہ ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکائونٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چائیے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہوگا؟
وکیل واپڈا سعد رسول نے کہا کہ عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنانا تھا، آئین میں عملدرآمد بنچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہوجاتے ہیں ،میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عملدرآمد کا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہاکہ سپریم کورٹ نے پیشرفت رپورٹس 184/3 کے دائرہ اختیار میں مانگی تھیں، سابق اٹارنی جنرل نے ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کو دینے کی مخالفت کی،میڈیا ر پو ر ٹس کے مطابق ایک صوبے کی حکومت اربوں روپے کی گاڑیاں خرید رہی ہے۔