سائفرکیس،کبھی بھی صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت ٹرائل نہیں ہوا،وکیل

Oct 09, 2023 | 16:12 PM

JAWAD MALIK

ایک نیوز: چیئرمین پی ٹی آئی  کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923کا قانون ہے،اس ایکٹ کے اندر کسی جگہ سائفر کا ذکر نہیں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں 14سال قید یا موت کی سزا ہے۔

تفصیلات کے مطابق  اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر  پیش ہوئے، سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور اورراجہ رضوا ن عباسی بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔

عدالت نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی کوآفیشل سیکرٹ ایکٹ پر بھی دلائل دینے کا حکم دیدیا،سلمان صفدر نے کہاکہ سب سے زیادہ قانون سے متعلق ہی عدالت  کی معاونت کروں گا،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل  نے سائفر کیس میں ایف آئی آر پڑھ کر سنائی ۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چالان میں کتنے افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے؟

سلمان صفدر نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کیخلاف چالان جمع کرایا گیاہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر ایک کوڈڈ شکل میں آتا ہے تو اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟

وکیل نے کہاکہ الزام ہے ذاتی مقاصد کیلئے کلاسیفائیڈ ڈاکیو منٹ کے حقائق کو ٹوئسٹ کیا گیا، ایف آئی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کو میٹنگ منٹس تیار کرنے کا کہا،سائفر کو غیرقانونی طور پر رکھنے اور غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیاگیا، کہا گیا کہ اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کو تفتیش کے دوران دیکھا جائے گا، ایف آئی اے نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔

سلمان صفدر نے کہاہر ایمبیسی میں ایسے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں جو سیکرٹ کوڈز سے واقفیت رکھتے ہیں،سائفر فارن آفس میں آتا ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد کاپیز بنتی ہیں،سائفر کی کاپیز پھر آرمی چیف سمیت 4آفسز میں تقسیم  ہوتی  ہیں،یہ سیکرٹ ڈاکیو منٹ کی سیکرٹ کمیونیکیشن ہوتی ہے۔

سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ فارن سیکرٹری کی ڈومین ہوتی ہے سائفر کس کو بھجوانا ہے؟

چیف جسٹس  عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کوئی سٹینڈرڈ پریکٹس نہیں کہ سائفر کس آفس کو لازمی جاتا ہے؟

شاہ خاور نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ سائفر پیغام کس نوعیت کا ہے،آخر میں اصل سائفر رہ جاتا ہے، ڈی کوڈڈ ٹیکسٹ نہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہاکہ عدالت کو دیکھنا ہو گا یہ قانون یہاں لگتا بھی ہے یا نہیں۔بیرسٹر سلمان صفدر نے کہاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923کا قانون ہے،اس ایکٹ کے اندر کسی جگہ سائفر کا ذکر نہیں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں 14سال قید یا موت کی سزا ہے۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ کسی دشمن ملک کیساتھ سائفر شیئر نہیں کیا،قومی سلامتی کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کیا،

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ دشمن ملک کس کو کہیں گے؟عموماً جنگ کے موقع پر ہوتا ہے کہ یہ فلاں دشمن ملک ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ یہاں کلبھوشن، ابھی نندن یا کہوٹہ پلانٹس کے نقشے بنانے کا واقعہ نہیں ہے،پہلے یہ قانون پڑھا اور پھر کہانی لکھ کرتمام وہی الفاظ شامل کر دیئے گئے،اس قانون کو بہتر کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی، اب اس میں ترمیم کرکے سائفر کو شامل کیاگیا، کوشش کی گئی تبدیلی لے آئیں لیکن اس  کا اطلاق اس ایف آئی آر پر نہیں ہو سکتا۔

وکیل سلمان صفدر نے مزید کہاکہ بدنیتی کی بنا پر قانون میں نئی ترامیم کی گئیں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم چیلنج بھی کی جا چکی ہیں،ماضی میں کبھی صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہوا۔اس کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو 2 ماہ ہو گئے ہیں، عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا،پٹیشنر ایک سیاسی قیدی ہے، 20 سے زائد مقدمات میں ضمانت ملی کیونکہ وہ کیسز بدنیتی کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔

وکیل درخواست گزار  نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عمر 71 سال ہے، بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں،سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی مخالفین کی ایما پر مقدمات درج کیے گئے،40کیسز صرف اسلام آباد اور 200کے قریب ملک بھر میں مقدمات درج کیے گئے،جس مقدمے میں ٹرائل کورٹ ایک دن کا بھی فزیکل ریمانڈ نا دے تو یہ بھی ضمانت کا گرؤانڈ ہے،پراسیکیوشن نے ٹرائل کے فزیکل ریمانڈ نا دینے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔

وکیل  سلمان صفدر نے کہا کہ میرے سے کسی قسم کی کوئی ریکوری نہیں ہوئی،فزیکل ریمانڈ نا دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے،16 اگست کو دئیے جانے والے ریمانڈ کے وقت نا ہماری حاضری ہے نا ہمیں پتہ چلا،16 اگست کا ریمانڈ ہمیں 30 اگست کو پتہ چلا۔

بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں