سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس آج ختم کرنا ہے: چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس آج ختم کرنا ہے: چیف جسٹس
کیپشن: سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت آج ہو گی

ایک نیوز:سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائزی عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارےادارے میں کیسزکا بوجھ بڑھ رہا ہے،آج کیس کو ختم کرنا ہے،اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں۔بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔

اضافی دستاویزات درخواست گزار امیر خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی جانب سے جمع کرائی گئی ہیں، متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے اضافی دستاویز کو منظور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار کے دلائل

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کر دیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نا ہی رولزبنانےکیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین کہتا ہے سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانےکے لیے بااختیار ہے، سپریم کورٹ آئین سے بالارولز بناتا ہے تو کوئی تویاد دلائےگاکہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین توپہلےہی سپریم کورٹ کوپابندکرتا ہےکہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا وقت کم ہے جلدی سے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ سبجیکٹ ٹو لاء کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑےگا؟

وکیل عابد زبیری نے کہا آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے الفاظ ہٹا دیے جائیں توبھی فرق نہیں پڑےگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا، اگلے نکتے پر جائیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ اگر  آرٹیکل 191میں کہا جاتا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک اور سوال ہے، کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوزکرکے قانون بنا سکتی ہے؟ ہمیں دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے لیے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا جو اس نے استعمال کیا، کیا اس کےبعد قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو بدلا جا سکتا ہے؟

عابد زبیری نے کہا جب سپریم کورٹ نے رولز بنا لیے تو انہیں قانون کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آج سماعت مکمل کرنا ہے، میں وکلاء کو سننا چاہتا ہوں، جج صاحبان اپنے فیصلے میں جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریماکس دیئے کہ آئین و قانون کے مطابق رولزبنانےکے لیے پابندکرنے کا مطلب ہے موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائزی عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارےادارے میں کیسزکا بوجھ بڑھ رہا ہے،آج کیس کو ختم کرنا ہے،اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟

عابد زبیری نے بتایا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانےکا حکم دیا تھا،اتنے سارےکاغذ ابھی پکڑا دیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ؟ ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہا نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کم ازکم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیوجرسی کی عدالت کے فیصلےکوبطورمثال پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔

وکیل عابد زبیری نے کہاکہ نیوجرسی کی عدالت میں کہا گیا قانون سازی اور رولز بنانے میں فرق ہے.

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 175ٹو کو آرٹیکل 191کیساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175ٹو کسی بھی عدالت کے مقدمات سننے کا اختیار بتایا گیا ہے۔

وکیل عابد زبیری نے کہاکہ سپریم کورٹ کےرولز سےمتعلق آرٹیکل 142اے اور اینٹری 55کو ملا کر پڑھنا ہوگا، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں،آئینی شقوں پر دلائل دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے،آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہایہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی،معزز ججز ہوتے ہیں،اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔

عابد زبیری نے کہا کہ آئین کہتا ہے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی جن کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہوگی،آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اُٹھا سکتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کیلئے خود بااختیار ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کہاکہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائیکورٹ، شریعت عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ  ہے آئین سازوں  نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں آئین اور  قانون سازوں  کی نیت دیکھ رہے ہیں اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175دیکھیں،اگر آئین سازوں کو مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے،کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہو گا توخود ہی کالعدم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں،جوڈیشل کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی،جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں،سوال  یہ ہے آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔پاکستان میں 184تین کا استعمال کیسے ہوا؟کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں ہے؟آرٹیکل 184تین سے متعلق ماضی میں کیا رہا؟یا تو کہہ دیتے کہ 184تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا،اس بات پر تو آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے ہیں،اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں،آپ یہ تو کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے یا نہیں؟نیوجرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں،سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟

وکیل عابد زبیری نے کہاکہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کررہا ہوں،آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184تین پر آرہاتھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184تین کا غلط استعمال ہوتا رہا۔

 جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کے پاس ویسے بھی اختیار ہے کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا یا کم کر سکتا ہے،کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتا؟

جسٹس  اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں اچھے بُرے یا صحیح غلط کا سوال نہیں، اختیار کا سوال ہے،یہ بتائیں قانون جتنا بھی اچھا ہو، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انصاف تک رسائی کے حق کی سپریم کورٹ خلاف ورزی کررہی ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟آپ اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلیل نہیں دے سکے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا ماضی میں آرٹیکل 184تین کا استعمال صحیح ہوا یاغلط؟ میرے سوال کا جواب دیں بطور سپریم کورٹ بار آپ کی کیا رائے ہے؟اگر مگر نہیں ، سیدھا جواب دیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہاکہ آرٹیکل 184تین کا غلط استعمال ہوا اور اس کے خلاف اپیل ہونی چاہئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ مقدمہ بھی ہم آرٹیکل 184تین کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق آرٹیکل 184تین کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ،پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ مقدمات میں آرٹیکل 184تین کادائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمار کس دیئے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں۔

وکیل عابد زبیری نے کہاکہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185کے تحت ہے۔آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کا استعمال کیسے ہوا،کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے،اگر کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی ذرا سی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی،ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا،قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں،آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو دیکھیں،ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے،امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا،ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے،سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں۔ 

جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ میں آئین کی کون سے شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بلواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کل کی باتیں نا کریں آج کی صورتحال بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نا ہوتی،آپ نا مدعی ہیں نا مدعا علیہ توپھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سےاصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟ 

بعد ازاں عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت میں ساڑھے گیارہ تک کا وقفہ کردیا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو درخواستگزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں،آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا۔چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بےکار کر دیا،سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہےصرف چیف جسٹس کیس سن لیتا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں،چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔

وکیل عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بنچز بنا سکتا ہے،اگر دو ججز کہتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے بنچ نہیں بنانے صرف چیمبر ورک کرنا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات بےکار ہوں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ابھی تک مستقبل کا بتا رہے ہیں،ابھی اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟آپ ہمارے سامنے اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں؟

وکیل عدنان خان  نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی،ایکٹ میں فوری مقرر ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔ 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کے لیے  اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے،میں نے تو پہلے ہی کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے،کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نا ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہو گا؟

وکیل عدنان خان  نے کہا کہ مشاورت اچھی چیز ہے اور چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں،اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔

چیف جسٹس  پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟قانون یا شرع کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہو گا؟کوئی حوالہ دے دیجیے۔

وکیل عدنان خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میں ریفرنس جمع کرا دوں گا۔

درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کردیئے۔

درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر 15ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ 15ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل یہاں نہیں ہو گی،اللہ کے پاس جائے گی۔

وکیل شاہد رانا نے کہاکہ ہائیکورٹ میں فیصلہ دینے والےجج سے انٹراکورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں،سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185کے تحت ہوتی ہیں،آرٹیکل 185کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184میں تو نہیں ہو سکتی۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے،یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟کیا پتہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے درست نہیں کیا جا سکتا، یہاں بار کے انتخابات جتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کیلئے نمبر پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے،سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184تین کے دائرہ کار میں کئے تمام فیصلے درست ہیں؟

وکیل شاہد  رانا نے کہاکہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184تین کے تحت مفاد عامہ کے کیس سننے چاہئیں، مفاد خاص کے نہیں،اللہ نے تمام حکم دلیل کے ساتھ دیئے  تو قانون سازی بغیر دلیل کیسے ہو سکتی ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ اپنا کیس خراب نہ کریں آگے چلیں۔

وکیل شاہد رانا نے کہاکہ چیف جسٹس اپنے اختیارات محدود کرنا چاہتے ہیں تو بذریعہ فل کورٹ کردیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایک صفحے کی آپ کی درخواست ہے، دلائل مکمل کریں۔

وکیل شاہد رانا نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست 2 صفحے کی ہے۔

وکیل رانا شاہد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔

امتیاز صدیقی نے دلائل کیلئے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھا دیا۔ چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخی  ہو گئی۔

امتیاز صدیقی نے کہاکہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے،ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کہاں لکھا ہے حکم نامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے۔

امتیار صدیقی نے کہاکہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکم نامہ جاری ہوا تھا،حکم نامے میں درج ہے امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہاکہ میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے،خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں۔وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براحمان ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے آپ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے  ریمارکس دیئے کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیسے ممکن ہے کہ "سبجیکٹ ٹو لاء" لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2010 کے فیصلے میں اپنے رولز کو اعلی درجے پر قرار دیا،کیا سپریم کورٹ نے اپنے رولز کو قانون سے بالا قرار دیا تھا؟ 

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر میں آپ سے سوال ایسا پوچھوں جو میں نے فیصلہ کرنا ہے تو سوال کا کیا فائدہ؟

وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز سے متعلق ایک لکیر کھینچی گئی ہے کہ یہ اعلی درجے کے قواعد و ضوابط ہیں،میں اپیل کے حق سے متعلق دلائل دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ زاہد صاحب، آپ یہ تمام سوالات جمع کر لیں،ہم آدھے گھنٹے کی لنچ بریک کر رہے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی مسلم لیگ ق کے وکیل زائد ابراہیم دلائل دے رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ ہے اختیارات بڑھا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم اختیارات بڑھانے کے لفظ کو پابندی کیلئے استعمال کریں  گے ؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اختیارات کو بڑھانے کے آرٹیکل کو 175(2) کے ساتھ مل پڑھیں گے یا نہیں۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ جب مرضی ہوگی قانون بنائیں گے کیا یہ اپکی دلیل ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کوئی خاص طریقہ کار کا معاملہ ہے ؟ 

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ زاہد صاحب برائے مہربانی اپنے دلائل تو بتائیں پہلے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے استفسار کیا کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بنچ میں بیٹھےجج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے،اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ 
جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئےکہ  بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے؟

وکیل زاہد ابراہیم  نے کہا کہ اپیل بنیادی حق ہے، اسلام بھی پابند کرتا ہے کہ اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ آپ کوئی دلائل تو دیں جن کو ہم درج کر لیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے پہلے سے موجود اختیار کو بڑھایا گیا ہے،ماضی میں کئی بار وکلاء نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کا غلط استعمال کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پارلیمان کل)(3) 184 کو واپس لے لے۔

جسٹس یحیی آفریدی  نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 191 سے اینٹری 55 کا تعلق سمجھا دیں۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے  آئین میں بلاواسطہ ترمیم کی گئی،کیا آئین پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتا ہے،جس طرح آپ اس کو اینٹری 58 سے لنک کر رہے ہیں تو پھر آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کا اختیار بہت وسیع ہونا چاہئے،آپ 1956 کا آئین پڑھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بنچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے،اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیئے کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ ہے اختیارات بڑھا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم بڑھانے کے لفظ کو پابندی کیلئے استعمال کریں  گے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اختیارات کو بڑھانے کا آرٹیکل 175(2) کے ساتھ مل پڑھیں گے یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جب مرضی ہوگی قانون بنائیں گے کیا یہ آپکی دلیل ہے۔

وکیل زاہد ابراہیم  نے کہا کہ درخواست گزاروں سے سوال کیا گیا ہے کونسا بنیادی حق اس ایکٹ سے متاثر ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوشش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے کام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا جائے،عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہو گی ۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس قانون کے بعد ماسٹر اف روسٹر کون ہے ؟

زاہد ابراہیم نے کہا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی نے پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہو گی،نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمان ماسٹر اف روسٹر بن جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ ہے،رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے،مقدمات کا مقرر کرنے چیف جسٹس کے رجسڑار کا اختیار ہے،ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں،اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے تو اس سے کیس کا نتیجہ متاثر کرسکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے رمارکس دیئے کہ اگر ایک شخص نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہے تو 3 بھی ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ پیغام اس عدالت سے نہیں جانا چاہیے کہ آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے،جو قانون ہے آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں،یہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کے منافی ہے،میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے ایکٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو مائیکرو مینج کرنے کی کوشش کی،ایکٹ میں ججز کی کمیتی، بنچ میں ججز کی تعداد کا تعین کیا گیا،ایکٹ میں یہ بھی درج ہے کہ کون سے کیس فوری سننے چاہئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی چیف جسٹس کے اختیارات سے کیسے جوڑی جا سکتی ہے؟عدلیہ کی آزادی چیف جسٹس کی آزادی ہے تو تعلق پوری عدلیہ سے نہیں ہونا چاہئے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس قانون کے تحت تو پارلیمنٹ ماسٹر آف دی روسٹر ہے،یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی سے براہ راست متصادم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ماسٹر آف دی روسٹر خود بول سکتا ہے؟روایت کے مطابق کیسز کی لسٹ ہر جمعرات چیف جسٹس کے پاس جاتی تھی،چیف جسٹس فیصلہ کرتا تھا کون سا کیس کس جج کے سامنے مقرر کرنا ہے،سپریم کورٹ رولز 1980کہتے ہیں کیسز کا تقرر رجسٹرار کی ذمے داری ہے، ماسٹر آف دی روسٹر کے طور پر مجھے اختیار دے دیں پھر۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ماسٹرز کی روایت دنیا سے ختم ہو چکی ہے اب ہمیں بھی اس سے نکلنا چاہئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیشہ میری پاورزکو کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کسی کی تضحیک نہیں کرنا چاہتا لیکن ماسٹر بدلتے رہتے ہیں،ضروری نہیں جو ایک چیف جسٹس کو پسند نہیں آرہا وہ دوسرے کو بھی نہیں آئے گا۔

وکیل زاہد ابراہیم نے کہاکہ چاہتا ہوں کہ ججز اس قانون کو عدلیہ کی آزادی پر حملے کے طور پر نہ دیکھیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ سے متفق ہونے کا واحد طریقہ کار یہی ہے اپنی آنکھیں بندکرلوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت سے یہ پیغام نہیں چاہئے کہ آئین و قانون اس بات پر منحصر ہے،چیف جسٹس کون ہے،آئین و قانون کسی چیف جسٹس کی منشا پر منحصر نہیں ہے،اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو یہ آئین و قانون کی تباہی ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ فلاں چیف جسٹس اس تاریخ کو ریٹائرہوگا تو قانون یا آئین بدل جائے گا، میں آئین کا غلام ہوں ،یہ نہیں ہو سکتا کہ آج آئین یہ ہے کل کچھ اور ہوگا، روسٹرم پر زیادہ وکلا جمع نہ ہوں ، صرف دو وکلا موجود رہیں،اس درخواست پر اوپن کورٹ میں سماعت کا آرڈر دیا ہے۔

خیال رہے کہ وکلا کے دلائل مکمل ہونےکی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی آج کیس مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔