ایک نیوز:غزہ کےشہری ایک ماہ سےزائدعرصہ سےصاف پانی،خوراک اورطبی سہولیات سےمحروم ہے۔
تفصیلات کےمطابق فلسطین پراسرائیلی دہشتگردی کاسلسلہ7اکتوبرسےجاری ہےجس کےبعدسےغزہ کےشہریوں کی زندگی مشکل ترین ہوگی ہے،مظلوم فلسطینی زندگی کی تمام ترسہولیات سےمحروم ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں صحت، نکاسی آب، صاف پانی اور خوراک تک رسائی جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور مکمل نظام منہدم ہونے کے قریب ہے۔
خیال رہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ33 روز سے جاری ہے جس کے دوران اب تک10 ہزار569 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں4324 بچے بھی شامل ہیں۔اس عرصے میں26 ہزار475 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔
9 اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ کی سرحدوں کو مکمل بند کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی سپلائی مکمل طور پر رک گئی تھی۔7 اکتوبر سے اب تک غزہ کے15 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔
خوراک دستیاب نہیں
اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق 7 اکتوبر یعنی کےجنگ کےآغازسے قبل بھی غزہ کی80 فیصد آبادی کو مناسب مقدار میں خوراک دستیاب نہیں تھی۔
اس وقت لگ بھگ50 فیصد آبادی کو خوراک کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کے فلسطین میں کام کرنے والے ادارے کی امداد پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔7 اکتوبر سے قبل روزانہ اوسطاً500 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوتے تھے۔
مگر اب صورتحال بدل چکی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق21 اکتوبر سے اب تک محض451 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں، جن میں سے صرف158 میں خوراک موجود تھی،102 میں طبی سامان،44 میں پانی یا صفائی سے متعلق مصنوعات،32 میں عام اشیا اور8 میں نیوٹریشن سپلائیز موجود تھیں۔
کسی بھی ٹرک میں ایندھن موجود نہیں تھا کیونکہ اسرائیل اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ میں خوراک کے ذخائر بمشکل5 دن کے لیے کافی ہوں گے جبکہ زیادہ تر افراد کو خوراک دستیاب نہیں۔
غزہ میں متعدد بیکریاں بند ہوچکی ہیں اور جو ابھی بھی فعال ہیں، وہ عام حالات کے مقابلے میں6 گنا زیادہ سامان تیار کر رہی ہیں مگر وہاں سے روٹی یا دیگر سامان کے حصول کیلئے رہائشیوں کو گھنٹوں تک قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ایندھن اور گندم کی قلت کے باعث یہ بیکریاں بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کھانے کی کمی سے بچوں کی نشوونما تھم جاتی ہے اور جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جس سے متعدد جسمانی اور ذہنی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
حاملہ خواتین کو مناسب غذا تک رسائی حاصل نہ ہو تو اسقاط حمل، قبل از وقت پیدائش یا بچوں میں پیدائشی نقص جیسے خطرات بڑھتے ہیں۔
پانی کی شدید قلت
انسانی حقوق کے گروپس برسوں سے غزہ میں پانی کی قلت کے حوالے سے خبردار کرتے آرہے ہیں۔
2021 میں گلوبل انسٹیٹیوٹ فار واٹر، انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ نے کہا تھا کہ غزہ میں دستیاب97 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔
مگر اب بجلی کی عدم دستیابی کے باعث پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس بھی بند ہوچکے ہیں جس کے باعث صاف پانی تک رسائی لگ بھگ ناممکن ہوگئی ہے۔
4 نومبر کو اسرائیل نے شمالی غزہ میں پانی کے ایک ذخیرے اور پبلک واٹر ٹینک کو تباہ کر دیا تھا جس کے باعث پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی۔
اس وقت زیادہ تر افراد آلودہ اور کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں اور اس کے حصول کیلئے بھی گھنٹوں تک قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے7 نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہر فرد کو روزانہ 50 سے100 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، مگر غزہ میں ہر فرد کو اوسطاً محض 3 لیٹر پانی دستیاب ہے، جو پینے سمیت ہر مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔عدم دستیابی کے باعث صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
جب کسی فرد کو پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے گردوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر دل متاثر ہوتا ہے۔
بچوں کے لیے ڈی ہائیڈریشن جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے جبکہ بالغ فرد کو سر چکرانے، دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے اور دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔اگر پانی بالکل دستیاب نہ ہو تو صحت مند فرد کیلئے بھی ایک ہفتے سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔
طبی سہولیات کی بھی کمی
عالمی ادارہ صحت کے مطابق طبی مراکز پر اسرائیلی بمباری سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہو رہے ہیں۔
ادویات اور دیگر طبی سامان کی قلت کے باعث حاملہ خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے اور اکثر مقامات پر بچوں کی پیدائش کیلئے آپریشن anesthesia کے بغیر کیے جا رہے ہیں۔
اوسطاً روزانہ180 بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے اور طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ماؤں اور نومولود بچوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزین مراکز میں نظام تنفس کے امراض، ہیضہ اور چکن پاکس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے اب تک اسرائیلی بمباری کے باعث بے گھر ہونے والے افراد میں22 ہزار500 نظام تنفس کے انفیکشن جبکہ12 ہزار ہیضہ کے کیسز رپورٹ کیے ہیں۔
سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ڈاکٹر سرکے کو طبی آلات کی صفائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں جبکہ سرجری کے لیے سوئی دھاگے کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
غزہ کے سب سے بڑے شفا ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ طبی نظام منہدم ہونے کے قریب ہے اور جراثیموں سے پاک ماحول میں علاج کرنا ممکن نہیں رہا۔
غزہ کا واحد کینسر ہسپتال ایندھن دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو چکا ہے، شفا اور دیگر بڑے ہسپتال بھی بند ہونے کے قریب ہیں۔
واضح رہےکہ مجموعی طور پر7 اکتوبر سے اب تک غزہ کے50 فیصد ہسپتال جبکہ62 فیصد طبی مراکز بمباری یا ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں۔