ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ نے اسپیشل جےآئی ٹی رپورٹ مسترد کردی

ارشدشریف قتل ازخودنوٹس کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا
کیپشن: The hearing of Arshad Sharif murder case has started(file photo)

ایک نیوز: سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔

رپورٹ کے مطابق: سپریم کورٹ نے اسپیشل جےآئی ٹی رپورٹ مسترد کردی ہے۔بینچ میں چیف جسٹس کے ہمراہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کے ارکان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ 

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایم ایل اے کو جواب تاحال نہیں آیا۔ جے آئی ٹی دوبارہ متحدہ عرب امارات جانے کی تیاری کررہی ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کا مقصد بتا دیں ابھی تک کوئی میٹریل نہیں دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ارشد شریف قتل تحقیقات سلسلے میں دو پیش رفت ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا گیارہ اپریل کو ایم ایل اے آیا۔ یو اے ای کو 27 اپریل کو ایم ایل اے سوالات کا جواب دیدیا۔ کینین حکومت نے بھی تحقیقات کے سلسلے میں ابتک انکار نہیں کیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کو انکوائری کرتے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دسمبر 2022 میں معاملہ پر از خود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے قتل سے متعلق ابتک کیا مواد اکٹھا کیا۔ جے آئی ٹی ٹیم دبئی سے آرہی ہے کینیا جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ابتک کی کیا پیشرفت ہے۔ پیشرفت رپورٹ میں خرم ، وقار کو ملزم لکھا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وقار کے انٹرو پول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی ایجنسی ایف آئی اے ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے کو ریڈ وارنٹ کی درخواست جے آئی ٹی نے بھجوا دیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی کینیا میں ساری دیکھ بھال خرم، وقار اور طارق وصی کر رہے تھے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے 20 نمبرز کے فون اور وٹس ایپ کالز کی ریکارڈنگ مانگی ہے۔ یہ 20 نمبرز جے آئی ٹی کو کہاں سے ملے ہیں؟ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائیڈنگ رپورٹ میں ان نمبرز کا ذکر تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تو کہیں ان نمبرز کا ذکر نہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام 20 نمبرز ان لوگوں کے ہیں جو جائے واردات پر موجود تھے۔ تمام نمبرز کینیا کے حکام نے فراہم کیے ہیں۔ جے آئی ٹی 17 مئی کو دبئی اور کینیا کے لئے روانہ ہوگی۔ 

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کینیا میں واٹس ایپ کال ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کینیا اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں تو ریکارڈ کیسے ملے گا؟ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی سنجیدگی پر شدید تحفظات ہیں۔ ابھی تک خرم اور وقار کے دائمی وارنٹ بھی جاری نہیں ہوئے۔ کیا حکومت وارنٹس کے اجراء پر کسی سے مذاکرات کر رہی ہے؟ دائمی وارنٹ جاری کرنا تو چند منٹ کا کام ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا وارنٹس کو اتنا پیچیدہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔