عوام میرے ساتھ ہیں، بیساکھیوں کی ضرورت نہیں: عمران خان کا بی بی سی کو انٹرویو

عوام میرے ساتھ ہیں، بیساکھیوں کی ضرورت نہیں: عمران خان کا بی بی سی کو انٹرویو
کیپشن: میری جان کو خطرہ ہے،کیسے عدالتوں میں پیش ہوں،عمران خان

ایک نیوز:  پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ملک میں انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں تاہم انھیں بیساکھیوں کی ضرورت نہیں۔میری پارٹی کی مقبولیت سے خوفزدہ حکومت اور اس کے حامی  مجھے گرفتار یا نا اہل کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ میں نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔

غیرملکی چینل کو انٹرویو میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ حکومت اس لیے الیکشن نہیں کروانا چاہتی کیونکہ 37 میں سے 30 ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی۔ پی ٹی آئی ملک کی تاریخ میں سب سے مقبول جماعت ہے اور اس کی مقبولیت سے خوفزدہ حکومت اور اس کے حامی مجھے نااہل یا گرفتار کروانا چاہتے ہیں۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی وہ اقتدار میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیسے میں انتخابی مہم چلاؤں اورکس طرح عدالتوں میں پیش ہوں؟ تین بار عدالتوں میں پیش ہوا لیکن بدقسمتی سے وہاں سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔

بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرے تو کیا آپ کریں گے میں نے کہا میں سیاسی آدمی ہوں میں سب سے بات کروں گا۔ سوائے چوروں کے۔‘
عمران خان نے واضح کیا کہ انھوں نے کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ بیان چل رہے ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں۔جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔
بی بی سی کے مطابق عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فوجی قیادت تبدیل ہونے سے ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں کوئی فرق آیا تو ان کا کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔‘ان کا کہنا تھا ’ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے۔ اس سے پہلے کبھی سینیئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا۔‘’ہم نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 90 دن میں الیکشن کروانے کا حکم دیا۔ صدر نے بھی اعلان کردیا لیکن ’ہم انتخابی ریلی کرتے ہیں تو پولیس آ جاتی ہے۔ گاڑیاں توڑیں گئیں۔ واٹر کینن ہوا۔ لوگوں کو گرفتار کیاگیا۔نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا۔ یہ کیسے روک سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے لاہور کے علاقے زمان پارک کے اردگرد اپنے کارکنان کی پولیس سے جھڑپوں کے بعد بدھ کو نکالی جانے والی انتخابی ریلی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پولیس نے اس ریلی کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ اس تصادم میں جہاں 11 پولیس اہلکار زخمی ہوئے وہیں تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی اپنے ایک کارکن کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
بدھ کی شام اپنے پیغام میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ الیکشن سے بھاگنے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے کارکن کسی قسم کے انتشار کا حصہ نہ بنیں تاکہ حکومت کو الیکشن سے بھاگنے کا موقع نہ مل سکے۔
عمران حان کا کہنا تھا کہ یہ (حکومتی جماعتیں) خوفزدہ ہیں۔ چند ماہ میں ہونے والے 37 ضمنی انتخابات تحریک انصاف جیت چکی ہے۔ ان کی شہرت تو یہ ہے کہ یہ خود سڑکوں پر نکل نہیں سکتے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ الیکشن نہ ہوں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ انتشار چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تو رات تک لڑائی چلتی رہتی لیکن ہم ان کو موقع نہیں دینا چاہتے کہ یہ انتشار کو وجہ بنا کر الیکشنز سے نکل جائیں۔الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تاریخیں دی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے اسے حکم دیا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کراوانا چاہتی۔ابھی تک ہر قسم کا بہانہ دیا جا رہا ہے کہ کیوں الیکشن نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی بڑی شخصیت کا قتل کروا دیں گے جیسے بینظیربھٹو کا ہوا۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے نکلیں۔
اس سوال پر کہ اگر الیکشن نہیں ہوتے تو وہ کیا کریں گے؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ توہینِ عدالت ہو گی۔ آئین کہتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کہتے ہیں۔ اگر یہ نہیں کروائیں گے تو آئین اور قانون ختم ہو جائے گا۔تحریکِ انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوں جاؤں یا جیل چلا جاؤں اور یہ الیکشن جیت جائیں۔قوم حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی اس لیے میں 2018 کا الیکشن جیتا۔ اب جو مہنگائی ہوئی ہے اب تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔ہم تو الیکشن چاہتے ہیں صرف بات یہ کرنی تھی کہ عقل نہیں کہتی کہ سارے الیکشن اکٹھے کروا دیں۔ ملک کا بھی فائدہ ہے۔ عوام کو چننے دو کہ وہ کِسے چاہتے ہیں۔ جو حکومت آئے گی وہ مسئلے حل کرے گی۔
پرویز الٰہی کو پارٹی میں اہم عہدہ دیے جانے کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ وائس چیئرمین پارٹی کی نمبر ٹو قیادت ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی نے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت کیا، وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ رہے اس لیے انھیں عزت دینے کے لیے پارٹی کا عہدہ دیا۔
عمران خان کا اپنی صحت کے حوالے سے کہنا تھا کہ میری ٹانگ میں جو زخم ہیں ان کی صحت یابی سست رفتار ہے۔ ڈاکٹرز نے چلنے اور کھڑے رہنے سے منع کیا تھا لیکن میں بعد میں لاہور اور اسلام آباد عدالت گیا لیکن وہاں سکیورٹی نہیں تھی۔ وزرات داخلہ نے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے مجھے پتا ہے میری جان کو خطرہ ہے۔ہمارے وکیل نے کہا سکیورٹی کی ضمانت دیں ورنہ ویڈیو کانفرنس کر لیں۔ جو آج کل ہوتی ہے۔ مجھے پر 70 سے زیادہ کیسز ہیں۔ان کے خلاف کیسز عجیب نوعیت کے ہیں جو عدالت میں جاتے ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنی گرفتاری سےمتعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں میں انتخابی مہم نہ چلاؤں۔ یہ کپتان کے بغیر میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔