ایک نیوز: اسلام آباد میں حلقہ بندیوں میں اضافے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے حکومت سے حلقہ بندیوں میں اضافے کی ٹھوس وجہ مانگ لی۔ اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوران سماعت وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ ان کے مؤکل کی درخواست پر کیا گیا لیکن انہیں ہی نوٹس نہیں دیا گیا۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ ہی کی درخواست پر فیصلہ کیا گیا تو آپ کو نوٹس کرنا چاہیے تھا۔
اس موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا احترام ہے لیکن ابھی بلدیاتی ایکٹ بنا نہیں ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بارہ جنوری کیلئے مشترکہ اجلاس کی ریکوزیشن گئی ہے۔ چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پھر آج کا اخبار پڑھا نہیں ہے، صبح چائے یا کافی کے ساتھ اخبار پڑھ لینا ٹھیک رہتا ہے، صدر مملکت نے مشترکہ اجلاس کی ریکوزیشن مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اسلام آباد صرف ایک شہر نہیں، دارالحکومت کے باعث وفاق کی علامت ہے، چیف کمشنر کو ہی چیئرمین سی ڈی اے کا اضافی چارج کیوں دیا جاتا ہے؟ کیا افراد کی کمی ہے؟ یہاں کے مسائل کا حل کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں۔ مسئلے کا حل وہی ہے کہ جب یہاں کی اپنی چھوٹی سی پارلیمنٹ ہو، سڑکیں گلیاں بنانا ارکان پارلیمنٹ نہیں، لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ کام لوکل گورنمنٹ کے ہیں اور انہوں نے ہی کرنے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ جب لوکل گورنمنٹ تھی تو میئر کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔
چیف جسٹس نے اپنے مکالمے میں مزید کہا کہ اس بات کو بھی دیکھیں کہ جب بھی مقامی حکومت آئے گی تو کیا وہ مؤثر کام کرسکے گی؟
عدالت نے ڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اگر آج آپ کو کہا جائے کہ الیکشن کرائیں تو آپ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر 101 یونین کونسلز پر الیکشن کرانا ہو تو ہمیں سات سے دس دنوں کا وقت درکار ہے۔
چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کی ٹھوس وجہ بتانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 جنوری تک ملتوی کردی۔