ایک نیوز: میاں جاوید لطیف کی متنازع پریس کانفرنس کے بعد متعدد مقدمات درج ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں میاں جاوید لطیف کی پریس کانفرنس کے بعد سیکرٹری اطلاعات، پی ٹی وی ایم ڈی اور ڈائریکٹر نیوز کی دہشت گردی مقدمات کے خلاف درخواست ہر سماعت ہوئی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری درخواستوں پر سماعت کر کی۔
وکلا تنظیموں کی جانب سے عدالت کے سامنے کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے پراسیکیوٹر جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے گئے۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایک الزام پر ایک سے زائد مقدمات ہو سکتے ہیں ؟ اسلام آباد میں ٹی وی پر کوئی بات کرے ، ٹویٹ کرے تو کیا کوئٹہ میں مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟ اگر قتل اسلام آباد میں ہوا تو ایف آئی آر بھی یہاں ہی ہوگی تو باقی الزامات پر دوسری جگہوں پر کیوں؟ ہم نے وکلا تنظیموں کو اس لیے معاونت کے لیے بلایا کیونکہ مقدمات اندراج کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیسے ایک الزام پر سو مقدمے یا ہزار مقدمے درج ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر دوسری ایف آئی آر میں موقف مختلف ہو تو اس حوالے سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں وقوعہ ہوا ہے یا جس نے جہاں بات کی تو مقدمہ بھی وہیں درج ہو گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ وہ بیرون ملک ہیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کہیں کہ وہ آئندہ سماعت پر آکر عدالتی معاونت کریں۔
اس موقع پر وکیل کا کہنا تھا کہ جہاں مقدمات ہوئے پٹیشنرز کو وہاں کی ہائی کورٹس میں جانا چاہیے۔ اس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی ہائی کورٹ پابند ہے۔ اگر وقوعہ یہاں پر ہوا ہے تو ان کے مقدمے صوبوں کے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر وزیر پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کرتا ہے تو کیا ایم ڈی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بن سکتا ہے؟
پٹیشنرز کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ باقی چینلز پر بھی وزیر کی پریس کانفرنس چلی ہے اس کی لسٹ بھی ساتھ لگائی ہے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ کوئی قانون ہے یہاں ؟ عدالت نے کیس کی مزید سماعت فروری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔