ایک نیوز: کئی اسے بے وقوفی کہیں گے تو کئی ایمانداری۔۔ نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ کسی کی بھی نیت کو خراب کر سکتا تھا، لیکن غریب رکشہ ڈرائیورآس محمد کی ایمانداری جیت گئی۔
بھارت کے شہر مودی نگر کے 52 سالہ آس محمد ای رکشہ چلاتے ہیں اوراب مقامی سطح پر ہیرو بن چکے ہیں ۔روزانہ 500 کمانے والے آس محمد چار بچوں کے والد ہیں اور محنت مزدوری کی اس ایماندارانہ کمائی سے اپنی ایک بیٹی کو گریجویشن تک پڑھائی کرائی ہے اور بیٹے کو وکالت بھی کرائی۔ میرٹھ کے چھجی پور گاؤں کے رہنے والے آس محمد پر آج مراد نگر کے لوگ فخر محسوس کر رہے ہیں۔
مودی نگر کےآس محمد سڑک کنارے ملے نوٹوں سے بھرے بیگ کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پولیس کو جانچ میں اس بیگ میں 25 لاکھ روپے ملے۔ اس کے بعد آس محمد کو ایس پی دیہی روی کمار نے اعزاز بخشا۔ سی ای مودی نگر رتیش ترپاٹھی کے مطابق ایک شخص نے ان روپیوں کے اپنے ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ یادرہے شملہ روڈ پر وہ ٹین کی چادر کا بھاڑا اپنے ای رکشہ میں لے کر جا رہے تھے تو انھیں رجواہے کے نزدیک سڑک پر ایک بیگ پڑا ہوا دکھائی دیا۔ آس پاس دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے بیگ اٹھا لیا تو دیکھا کہ اس میں نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔ میں نے فوراً تھانہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور ساتھ چلنے کی بات کہی۔ بیٹا وکیل ہے اور اس نے اپنے ایک دوست کو میرے پاس بھیج دیا اور پھر میں تھانے پہنچ گیا۔ وہاں میری بہت تعریف کی گئی اور احترام بھی دیا گیا۔ میرا ماننا ہے کہ کسی کو بھی نصیب سے زیادہ نہیں مل سکتا، چاہے وہ ایمانداری سے کمائیں یا بے ایمانی سے۔ میں نے ایمانداری کا راستہ منتخب کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے عمل سے میرا کنبہ بھی خوش ہے۔ میں نے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو پڑھایا ہے اور میری کوشش ہے کہ انھیں حلال رزق کھلاؤں۔
آس محمد کے بیٹے محمد عامر غازی آباد میں بطور ٹرینی وکالت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ابو پر فخر ہے اور ان کی ایمانداری پر ناز ہے۔ ابو نے ہمیشہ سکھایا ہے کہ غریب ہونا برا نہیں ہے، بے ایمان ہونا برا ہے۔ آج انھوں نے زندگی بھر ہمیں جو سبق سکھایا، اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے۔عامر مزید بتاتے ہیں کہ جب ابو کو یہ بیگ ملا تو انھوں نے مجھے فون کر کے تھانہ ساتھ جانے کے لیے کہا۔ لیکن میں غازی آباد میں تھا تو میں نے اپنے ایک دوست سرفراز کو ان کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے گھر میں خوشی کا ماحول ہے۔ میری امی اس دن میری خالہ کے یہاں گئی ہوئی تھیں۔ وہ واپس آئی تو انھوں نے ابو کے فیصلے کی بہت تعریف کی۔
عامر کہتے ہیں کہ ابو تو سبھی کو پڑھانا چاہتے تھے لیکن معاشی جدوجہد کی وجہ سے میں اور میری بہن ہی زیادہ پڑھ پائے۔ میری امی منیفہ بہت مذہبی خیالات کی ہیں۔ انھیں اللہ پر بہت بھروسہ ہے اور انھوں نے ہمیشہ ہمیں صبر کی تلقین کی ہے۔ اللہ پر یقین ہی ہمیں یہاں لے کر آیا ہے۔
آس محمد کے بارے میں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ وہ پانچویں درجہ تک تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں اور 1990 میں میرٹھ میں ہوم گارڈ رہ چکے ہیں۔