ایک نیوز: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مستردکر دی، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس کل تک ملتوی کر دیا گیا۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہوگا۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوج اورسویلین میں فرق مصنوعی ہے، فوجی اہلکار بھی اتنے سویلینز ہیں جتنے عام شہری، سویلینز کی2کیٹیگریز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے، وہ سو یلینز جو افواج میں ملازمت کر رہے ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں اور افواج کو ڈیوٹی سے روکنے والوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا کور کمانڈر کا گھر بھی فوجی تنصیبات میں آتا ہے؟ ۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فوجی افسران کے گھروں میں بھی حساس دستاویزات موجود ہوتی ہیں۔
جس پر جسٹس مسرت ہلالی کہنا تھا کہ کیا کور کمانڈرز اپنے گھر کا دفتری استعمال کر سکتے ہیں؟۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ گھر کو دفتر ڈیکلیئر کرکے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ہم روز کورکمانڈرز کو گھروں سے دفتر آتے جاتے دیکھتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی اہلکاروں کو کام سے روکنے کا جرم تو تعزیرات پاکستان میں موجود ہے، تعزیرات پاکستان کے تحت فوج کو کام سے روکنے والوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔