ایک نیوز: چیئر مین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہناہے آئینی ترامیم کیلئے موجودہ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔
تفصیلات کےمطابق چیئر مین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہر شخص کی رائے اس کے ذہنی رجحان یا جھکاؤ کے تحت ہوتی ہے، بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے،میرے پاس خبر آئی کہ خیبرپختونخوا ہاؤس کو پولیس نے گھیر لیا ہے،میں فوری طور پر خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچا،تمام راستے بند، ہرطرف کنٹینر تھے لیکن میں خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچا،لوگ حالات اور صورتحال دیکھ کر ایک بیانیہ بناتے ہیں،بدقسمتی ہے صوبے کا وزیراعلیٰ6گھنٹے سامنے نہیں آرہا تو وہ کہاں ہے؟علی امین گنڈاپورسے متعلق پارٹی رہنما اغوا کے علاوہ کیا بات کرتے؟خیبرپختونخوا ہاؤس میں فیملیز رہتی ہیں صحافی بھی وہاں موجود تھے،خیبرپختونخوا ہاؤس گیا تو عملے اور پولیس سے ملاقات ہوئی،خیبرپختونخوا ہاؤس میں میری علی امین گنڈاپور سے ملاقات نہیں ہوئی تھی،پولیس ایسے ڈھونڈ رہی تھی جیسے علی امین گنڈاپور وہاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا خیبرپختونخوا ہاؤس سے نکل کر مارگلہ ہاؤس گیا،دروازے بند تھے تو دوبارہ خیبرپختونخوا ہاؤس آگیا، خیبرپختونخوا ہاؤس سے باہرنکلنے کی درخواست کی تواسسٹنٹ کمشنر نے راستہ دیا،تیسری بارخیبرپختونخوا ہاؤس گیا توحامد رضااورفردوس شمیم ساتھ تھے، سیاسی کمیٹی سے کوئی بات لیک ہوتی ہے تو افسوس ہوتا ہے، تحریک انصاف اس وقت سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے،پی ٹی آئی کی چاروں صوبوں میں نمائندگی ہے،پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جہاں تمام سیاسی رہنما ملکر فیصلہ کرتے ہیں،خیبرپختونخوا ہاؤس میں صرف عملے سے بات ہوئی،کسی افسر سے نہیں، علی امین گنڈاپور کے پروٹوکول سے پوچھا تو پتہ چلا وہ کے پی ہاؤس سے چلے گئے،کسی کونہیں معلوم تھا علی امین گنڈاپورکے پی ہاؤس کے اندرتھے یا باہرنکل گئے،وزیراعلیٰ کا پتہ نہ ہو کہ وہ اندر ہے یا نہیں توسیاسی جماعت کیا بیانیہ دیگی؟ خیبرپختونخوا ہاؤس صوبے کی ملکیت ہے، خیبرپختونخوا ہاؤس کی حیثیت سفارتخانے جیسی ہوتی ہے،ماضی میں سندھ ہاؤس میں جو کوئی گیا تو یہاں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا پولیس کوخیبرپختونخوا ہاؤس میں نہیں جانا چاہیے تھا،پولیس کوعلی امین گنڈاپور کے باہر آنے کا انتظار کرنا چاہیے تھا،اسلام آباد سے نکلنے کیلئے علی امین گنڈاپورکومحفوظ راستہ چاہیے تھا، علی امین کوخطرات،بطوروزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پولیس سے سکیورٹی مانگیں گے، علی امین گنڈاپورنےعقلمندی سے محفوظ راستہ اپنایا،علی امین کیلئےریڈ زون سے نکل کرجانے کیلئے کسی کونہ بتانا زیادہ محفوظ تھا،سیاسی جماعتیں کوئی بھی کام کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا بیانیہ نہیں دیکھتیں، سوشل میڈیا کے بیانیے سے پارٹی کا بیانیہ نہیں بنایا جاتا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا ملک میں جتنی آئینی ترامیم ہوئیں کسی حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں تھی، 1984کے بعد کسی جماعت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں آئی،آئینی ترامیم کے لئے حکومت کی ٹائمنگ درست نہیں،یہ ججز کے تبادلوں کیلئے جوآئینی ترامیم لانا چاہتے ہیں عدلیہ پرحملہ ہوگا، آئینی ترامیم کے ذریعے یہ عدلیہ کو آئسولیٹ کرنا چاہتے ہیں، آئینی ترامیم کے لئے موجودہ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں،پہلے دن سے ہمارا مؤقف یہی ہے آئینی ترامیم کا مسودہ ہمارے سامنے نہیں ،ہفتے کوپارلیمانی کمیٹی میں اعظم نذیرتارڑنے آئینی ترامیم پربریفنگ دی، اعظم نذیرتارڑ سے کہا ہمیں تحریری مسودہ دیں جوان کے پاس نہیں تھا، آئینی ترامیم کے لئے ہمارے بندے ان کے ہاتھ نہیں آئیں گے، آئینی ترامیم پرحکومت کوغلط فہمی ہورہی ہے،جب یہ ووٹنگ کیلئے بلائیں گے ان کے اپنے بندے ووٹ نہیں دیں گے ، کے پی،پنجاب سے حکومتی ایم این ایز کہہ رہے ہیں ووٹ ضمیر کے مطابق ہوگا، ہمارے لوگ محفوظ اور ہمارے ساتھ ہیں۔