ایک نیوز :سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون ادائیگیوں کے کیس میں ایک بار پھر سے زمین کا سروے کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے قرار دیا کہ سندھ حکومت اور ایم ڈی اے زمین کا مکمل سروے کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کریں ۔
تفصیلات کےمطابقسپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کراچی عملدرآمد کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں رقم جمع کرانے والے افراد اور کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے تھے، بنک والے بتا دیں رقم کس نے منتقل کی تھی۔جس پر بنک کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بنک کو تفصیلات فراہم کی جائیں تو کچھ بتا سکتا ہوں ، فلحال کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیے جائیں، اب دونوں کا اتفاق ہے کہ رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے،وکیل ملیر اتھارٹی نے دلائل میں کہا کہ سولہ ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آئوٹ پلان کی منظوری دی تھی،جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹائون کے حوالے کر دی؟کیا زمین کی پیمائش کی گئی ؟ ایدوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت حکم دے تو بحریہ ٹائون کیساتھ مل کر مشترکہ سروے کر سکتے ہیں،بحریہ ٹاون کے وکیل سلمان بٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بنچ قرار دے چکا ہے کہ عدالت خود بھی فیصلے پر عملدرآمد کروا سکتی ہے، جس فیصلے پر عملدرآمد کا کہا جا رہا وہ آئین کیخلاف ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہائی کورٹ کراتی ہے، دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے قرار دیا کہ بنک متعلقہ معلومات ملنے پر رقم بھیجنے والے کی تفصیلات فراہم کرے،اس کے علاوہ بحریہ ٹائون کے زیر قبضہ کتنی زمین ہے ؟ بحریہ ٹائون اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی بھی شواہد کیساتھ رپورٹ پیش کرے۔عدالت نے سندھ حکومت ایم ڈی اے کو سرکاری زمین پر بحریہ ٹائون کے قبضے کے الزمات سمیت زمین کا مکمل سروے کر کے رپورٹ 23 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔