ایک نیوز: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی نے جسٹس مظاہر نقوی کو ملنے والے پلاٹس اور جائیدادوں کا ریکارڈ 15 روز کے اندر پیش کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین پی اےسی نورعالمی کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس سے قبل چیئرمین پی اےسی نے اراکین کمیٹی سے بند کمرے میں مشاورت کی۔ جس کے لیے وہ کمیٹی روم میں بیٹھے اراکین کو لیکر باہر چلے گئے۔
پارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی آمدن اور اثاثوں سے متعلق معاملے کو جائزہ لیا گیا۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی نے کمیٹی کو بھجوایا ہے۔ اجلاس میں برجیس طاہر، نثار چیمہ، شیخ روحیل اصغر، شاہدہ اختر علی اور وجیہ قمر شامل ہیں۔ متعلقہ وزارتوں کے افسران بھی اجلاس میں موجود تھے۔
چیئرمین پی اے سی نے نور عالم کا صوبائی چیف سیکرٹریز، سیکرٹری داخلہ، چئیرمین نادرا کی عدم شرکت پر اظہار برہمی کیا۔ اراکین پی اے سی محسن عزیز، نزہت پٹھان اور حسن طارق ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس موقع پر سیکرٹری قانون نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے اثاثوں سے متعلق ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پی اے سی نے وزارت قانون اور ایف بی آر سے جسٹس مظاہر نقوی کی ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ مانگ لی۔ کمیٹی نے جسٹس مظاہر نقوی کو ملنے والے پلاٹس اور جائیداد کی تفصیل بھی مانگ لی۔
چیئرمین پی اے سی نورعالم خان نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں 25 کروڑ روپے کا پلاٹ چار کروڑ میں دکھا کر ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے مؤقف اپنایا کہ ان کے پاس جسٹس مظاہر نقوی کے ٹیکس ریٹرن اور ظاہر کردہ اثاثوں کی تفصیل موجود ہے۔
اس موقع پر نورعالم خان کا کہنا تھا کہ چئیرمین نادرا اور سیکرٹری داخلہ اگر نہیں آتے تو پھر مجھے بلانا آتا ہے۔ عوامی نمائندوں کے اثاثوں کا سب کو پتہ چلنا چاہیے۔ آج غیر حاضر افسران اگلے اجلاس میں نہ آئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ جہاں بھی اثاثوں اور ٹیکس بچاؤ کی بات ہوگی تو ہم معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھجوا سکتے ہیں۔ امید ہے چیف جسٹس صاحب اس معاملہ میں حکم امتناع نہیں دیں گے۔
دوسری جانب پی اے سی اجلاس میں شریک گیارہ ارکان نے جسٹس مظاہر نقوی کی آمدن اور اثاثوں کی جانچ پڑتال کی حمایت کر دی۔ کمیٹی اراکین کی اکثریت نے جسٹس مظاہر نقوی کا معاملہ ٹیک اپ کرنا پی اے سی کا اختیار قرار دے دیا۔ تحریک انصاف کے رکن سینیٹر محسن عزیز نے مخالفت کردی۔ اس پر نورعالم خان نے کہا کہ معاملہ پر کمیٹی ارکان کے اگر کوئی تحفظات ہیں تو تحریری طور پر آگاہ کریں۔ جس پر سینیٹر محسن عزیز نے اختلافی نوٹ پیش کردیا۔ نورعالم خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ہماری ہے، ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔ اگر کوئی کرپشن یا غیر قانونی کام ہوا ہے تو پی اے سی اس معاملہ کو دیکھ سکتی ہے۔
پی اے سی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے والے بیوروکریٹس کو اظہار ناپسندیدگی کا نوٹس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نورعالم خان نے کہا کہ اگر آئندہ اجلاس میں افسران نہ آئے تو وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ جسٹس مظاہر نقوی بارے ریکارڈ تمام متعلقہ اداروں سے مانگا گیا ہے۔ پی اے سی نے تمام معلومات اور ریکارڈ پندرہ دن میں فراہم کرنے کاحکم دیا ہے۔