انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟جسٹس اطہرمن اللہ

انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟جسٹس اطہرمن اللہ
کیپشن: انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟جسٹس اطہرمن اللہ

ایک نیوز: طارق آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہ کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟

تفصیلات کے مطابق کیس کی سماعت کے آغاز پر وکیل حامد علی خان نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے طارق آفریدی کو پشاور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی مگر جوڈیشل کمیشن کی سفارش کے باوجود طارق آفریدی کو ایڈیشنل جج تعینات نہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے طارق آفریدی کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹ پر نامزدگی مسترد کی کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق طارق آفریدی کی ساکھ اچھی نہیں۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کر سکتی ہیں؟اس سے عدلیہ کی آزادی پر اثر پڑے گا۔ پارلیمانی کمیٹی نے پیشہ ورانہ صلاحیت کی بجائے انٹیلی جنس رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت معاملے کی قانونی حیثیت کا جاٸزہ لے گی۔ ’کیا پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کے لیے بلا لیتے ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کیا اور کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی گئی۔