ایک نیوز: قائم مقام افغان وزیرخارجہ عامر متقی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہئیں۔ واضح کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کو افغان سرزمین بغیراجازت استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ پاکستان سے مضبوط معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق قائم مقام وزیر خارجہ افغانستان عامر خان متقی نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہماری حکومت کو بیس ماہ ہو چکے ہیں- اللہ کے کرم سے بہت سے مسائل پر قابو پا لیا ہے۔
انہوں ںے کہا کہ میڈیا افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی سے متعلق بے بنیاد اور منفی پراپیگنڈا بند کرے۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کوتسلیم کرنے کے سوال پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال میزبان حکومت سے پوچھا جانا چاہیے۔ ہمیں میزبان حکومت نے سرکاری طور پر دعوت نامہ بھجوایا تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان اور وسط ایشیا سے معاشی تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی ڈائیلاگ اور باہمی روابط پر استوار ہے۔ گزشتہ بیس ماہ میں افغانستان کی معیشت بغیر کسی بیرونی امداد کے مستحکم رہی۔ بیرونی پابندیوں کے باوجود افغانستان کی درآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
قائمقام افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پوری ایمانداری سے کہتا ہوں پاک افغان تعلقات معاشی اور مین ٹو مین رابطے سے مربوط ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو سنجیدہ سیاسی و اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم علاقائی اتفاق رائے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان، ایران، چین،روس، سعودی عرب، قطر، ترکی اور وسط ایشیائی ریاستوں میں ہمارے سفارتخانے اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چوالیس سالہ بدامنی کے بعد اب افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے۔ افغانستان کی نئی خارجہ پالیسی سب ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا ہے۔ پاکستان اور سینٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی رابطہ بہت اہم ہے۔ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے چینلجز کے باوجود ہم اگے بڑھ رہے ہیں۔ جب طالبان نے حکومت سنبھالی تو کابل میں قائم گزشتہ حکومت صرف غیر ملکی امداد پر چل رہی تھی۔ طالبان حکومت پر غیرملکی پابندیاں لگادی گئیں۔ ہمارے اداروں کے پاس اخراجات پورے کرنے کے بھی پیسے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے بہت سے مایوس کن تجزیے مکمل طور پر دم توڑ چکے ہیں۔ ابتداء سے ہی خطے اور ہمسایہ ممالک کے لیے ہماری خارجہ پالیسی مذاکرات اور تعاون پر مبنی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارتی راہداری، اقتصادی، کاروباری تعلقات کو وسعت دینا ترجیح ہے۔ افغانستان، جنوبی ایشیاء اور وسط ایشیاء کو جوڑنے کے لیے اپنی کاوشیں کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے راستے وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیاء منسلک ہوں اور ترقی کریں۔ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر خطے کی مجموعی خوشحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ملک میں سماجی ترقی کے لیے فنڈز دو گنا کر دیے، سیکیورٹی فورسز کو دوبارہ فعال کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں خواتین کی نہ صرف مختلف سطحوں پر تعلیم جاری ہے بلکہ مختلف شعبوں میں خواتین کام بھی کر رہی ہیں۔
یاد رہے کہ عبوری افغان وزیر خارجہ امیر متقی سہ فریقی مذاکرات کےلیے دورہ پاکستان میں موجود ہیں۔ دورے کے دوران انہوں نے عسکری اور سیاسی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں بھی کیں ہیں۔
گزشتہ روز حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ، جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال گیا۔
حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ اورجمعیت علما اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان سے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ،جس میں پاک افغان تعلقات اور دوطرفہ امورسمیت علاقائی وعالمی معاملات پرتبادلہ خیال کیا گیا۔