ایک نیوز : پاکستان، ایران اور چین کا انسدادِ دہشت گردی اور خطے میں امن عامہ کی صورتِ حال پر بیجنگ کی میزبانی میں ایک غیر روایتی اجلاس ہوا ہے جس میں افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو ہونے والے اس اجلاس پر اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں شریک وفود نے خطے میں امن کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا جس میں خاص طور پر خطے کو در پیش دہشت گردی کے خطرات کو زیرِ بحث لایا گیا۔پاکستان اور چین کی خارجہ امور کی وزارتوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ تینوں ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان ملاقاتوں کو تواتر سے اداروں کی سطح ہر منظم کریں گے۔
پاکستان، ایران اور چین کے انسدادِ دہشت گردی کے سینئر عہدہ داروں نے اس اجلاس میں اپنے وفود کی سربراہی کی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، چین اور ایران کے درمیان انسداد دہشت گردی پر سہ فریقی مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت ڈی جی کاؤنٹر ٹیررازم کررہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں ممکنہ طور پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی صورتِحال ایجنڈا میں شامل اہم ترین معاملہ تھا۔
واضح رہے کہ بلوچستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشویٹو کا اہم ترین حصہ ہے جہاں چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک)کے تحت چین نے خطیر سرمایہ کاری کی ہے۔
گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے دونوں ملکوں کی سرحد پر مارکیٹ اور پاور سپلائی لائن کا افتتاح کیا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے تقریب سے خطاب میں معیشت اور سرحد ی سیکیورٹی کے حوالے سے تعاون کو مزید وسعت دینے کا عندیہ دیا تھا۔
دوسری جانب ایران بھی چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو مزید بڑھا رہا ہے۔ مارچ 2021 میں دونوں ملکوں نے اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ البتہ ایرانی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس معاہدے میں سیکیورٹی یا سرمایہ کاری کے حوالے سےکوئی مخصوص یقینی دہانیاں شامل نہیں ہیں۔
پاکستان، ایران اور چین نے افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش قبول کرتی رہی ہے۔