سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی، سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا

Jan 08, 2024 | 17:21 PM

ایک نیوز :سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ سناتے ہوئے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کر دی۔7صحفات پرمشتمل تحریری حکمنامہ  بھی جاری کردیاگیا۔

سپریم کورٹ کا تحریری حکم میں کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل62 ون ایف خود سے نفاذ نہیں ہوتا۔62ون ایف  کی کوئی قانون وضاحت نہیں کرتا ۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184(3) میں کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سات رکنی پینچ کی موجودگی میں مختصر فیصلہ سنایا، جو ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا۔

سپریم کورٹ نے6-1سے فیصلہ سناتے ہوئے سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ ختم کردیا۔جسٹس یحی آفریدی نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ پڑھ کر سنایا  ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو آئین سے الگ کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔سیاستدانوں کی 62 ون ایف کی تاحیات نااہلی ختم کر دی گئی۔الیکشن ایکٹ کا قانون فیلڈ میں ہے۔الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں۔الیکشن ایکٹ کا قانون فیلڈ میں ہے۔الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں۔سمیع اللّٰہ بلوچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے 62 ون ایف کی تشریح اس کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔عدالتی ڈیکلیریشن دینے کے حوالے کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن لڑنا شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ فیصلے کے بعد ‏نوازشریف اور جہانگیر ترین  کی تاحیات نااہلی ختم ،سربراہ ن لیگ  نواز شریف اور استحکام پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی۔

 جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے اختلاف کیا۔

 جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ میں کہنا تھا اکہ اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں۔62 ون ایف کے نااہلی تاحیات نہیں ہے لیکن عدالتی فیصلہ برقرار رہنے  تک رہے گی۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تمام ججز، وکلاء اور عدالتی معاونین کا مشکور ہوں۔ فیصلہ کچھ دیر بعد ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جائے گا۔آرٹیکل 62 ون ایف کو آئین سے الگ کرکے اکیلا نہیں پڑھا جا سکتا ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی بینچ نے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق اس کیس کا فیصلہ 5 جنوری کو محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل واپس لینے پر خارج کردی گئی۔
بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی تھی ۔پھر سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی۔اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظرثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا گیا تھا ۔اللہ  ڈینو  بھائیو کیس کے مطابق نااہلی کی مدت پانچ سال رہ گئی۔

مزیدخبریں