ایک نیوز : جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی ہے، دوران ملاقات افغان وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکام کو افغان مہاجرین کے ساتھ اپنا ظالمانہ رویہ بند کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پاکستان کا ایک وفد افغانستان کے دورے پر ہے۔
مولانا فضل الرحمان اتوار کو افغان حکومت کی دعوت پرکابل پہنچے تھے، جہاں انہوں نے نائب وزیراعظم افغانستان مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی۔
مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ وہ قندھار بھی جائیں گے جہاں ان کی افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات ہوگی۔
خیال رہے کہ طالبان سربراہ غیرملکی رہنماؤں سے بہت کم ملتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے دورے سے چند روز قبل ہی افغانستان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
وفد کی قیادت سینئر طالبان رہنما اور گورنر قندھار ملا شیرین اخوند نے کی اور افغان وزارت دفاع، اطلاعات اور انٹیلی جنس حکام شامل تھے، وفد نے پاکستانی حکام سے دو طرفہ مذاکرات کیے تھے۔
ملاقات میں افغانستان کے وزیراعظم نے پاکستانی علماء کے وفد کا خیرمقدم کیا۔
اس دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بیرونی قبضے کے خلاف امارت اسلامیہ کو عظیم فتح حاصل ہوئی ہے، ہم افغانستان کے عوام کو مبارکباد دیتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغانستان میں اسلامی نظام مزید مستحکم ہو گا، جس کی برکت سے اس کے مثبت اثرات پوری اسلامی دنیا تک پہنچیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات، معیشت، تجارت اور باہمی ترقی میں تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی نے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کے رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ہم اس قسم کے رویے کو غلط اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہاں خیر سگالی کا پیغام لائے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سفر کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
ملاقات کے دوران افغان وزیراعظم ملا محمد حسن نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں یہ دورہ دونوں پڑوسی ممالک اور برادر عوام کے درمیان بھائی چارے اور مثبت تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ملا محمد حسن نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کے مختلف شعبوں میں بہت سی مشترکات ہیں، اس لیے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اسلامی نظام کی حکمرانی ہے۔ علمائے کرام ہر معاملے کو شریعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔افغان وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے یا مسائل پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسائل کے حل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے علمائے کرام کا کردار اہم ہے۔
افغان وزیراعظم ملا محمد حسن نے کہا کہ پاکستانی حکام کو افغان مہاجرین کے ساتھ اپنا ظالمانہ رویہ بند کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کے رویے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مخالفت اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تمام مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرنی چاہئے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے مزید مسائل پیدا ہوں۔
اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ مولانا عبدالواسع ،مولانا صلاح الدین ،مولانا کمال الدین ،مولانا جمال الدین ،مولانا سلیم الدین شامزئی، مولانا امداد اللہ ،مولانا ادریس ،ڈاکٹر عتیق الرحمان ،مفتی ابرار بھی تھے
امارت اسلامیہ افغانستان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم جبکہ حقانی، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی، وزیر ارشاد حج و اوقاف شیخ الحدیث مولوی نور محمد ثاقب اور بعض دیگر حضرات نے شرکت کی۔ کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔پاکستانی سکالرز نے وفد سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر خارجہ مولوی امیر متقی نے افغان مہاجرین کے مسائل کے علاوہ افغان تاجروں کے مسائل، پاکستانی حکام کی طرف سے راہداری اور برآمدات میں پیدا ہونے والے مسائل کا بھی ذکر کیا جس سے ہر سال افغان تاجروں کو بھاری مالی نقصان ہوتا ہے اور اس بات پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی یا اقتصادی لین دین کو سیاسی مسائل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔