بھٹو قتل کیس: خواجہ حارث نےخود کو بطورعدالتی معاون مقدمہ سے الگ کرلیا

Jan 08, 2024 | 13:23 PM

ایک نیوز: بھٹو قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آگئی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر جسٹس نسیم علی شاہ کا ٹی وی انٹرویو کمرہ عدالت میں چلا دیا گیا ہے۔ تاہم انٹرویو کا مذکورہ حصہ نہ مل سکا۔دوسری جانب رضاربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون پر اعتراض اٹھا دیا۔ جس پر خواجہ حارث نے خود کو بطور عدالتی معاون مقدمہ سے الگ کر لیا۔

سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کا آغاز ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ریفرنس کی سماعت کر رہا ہوں۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 7 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو 11 سال قبل ہوئی تھی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے گزشتہ برس 12 دسمبر کو کی تھی۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر آرٹیکل 186 کے سکوپ پر معاونت طلب کی تھی۔ سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کے لیےعدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔

آج سپریم کورٹ میں مذکورہ ریفرنس پر سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا، اس عدالت کے سامنے اس مقدمے کا فیصلہ ہے جس کو دیکھنا ہے کہ وہ درست تھا یا غلط؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہمیں نجی ٹیلیویژن سے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی ریکارڈنگ سربمہر لفافے میں موصول ہو گئی ہے۔‘ اس دوران رضا ربانی روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟

رضا ربانی نے جواب دیا کہ وہ عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ بھٹو کے وکیل ہیں، انہوں نے کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔

اس کے بعد عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ ان کی معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر یہ بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ان کے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں، آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کمرہ عدالت میں سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔

احمدرضا قصوری روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں۔ آپ کو انکی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 4۔3 کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم سارا انٹرویو نہیں سن سکتے، متعلقہ حصہ سے انٹرویو چلایا جائے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نےاپنی کتاب میں ساری چیزوں کی وضاحت کی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ یہ کتاب پہلے شائع ہوئی ہے یا انٹرویو پہلے کا ہے۔

احمد رضا قصوری نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں اس کی وضاحت کر سکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یہ کتاب کب شائع ہوئی ہے۔

عدالت نے فاروق ناٸیک کی یو ایس بی کی ویڈیو کمرہ عدالت میں چلانے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے۔ عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ واحد نکتہ یہی ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی۔ ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بنچ آزاد نہیں تھا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی۔ دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بھٹو کیس میں بنچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے۔ ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔

احمد رضا قصوری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں۔ عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفی دے دیتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔ آپ نے درست ریکارڈنگ پیش نہیں کی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یوٹیوب سے مین انٹرویو ہٹا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ متعلقہ ادارے نے ہمیں انٹرویو دیا ہے۔ ایسا کرتے ہیں اس کی کاپیاں بنا دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کاپی سے متعلقہ حصہ ہمیں دکھائیں۔

جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا متعلقہ حصہ نہ مل سکا۔ جس پر عدالت نے ٹی وی سے موصول انٹرویو کی کاپی فاروق نائیک کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ آئندہ سماعت پر اس انٹرویوسے متعلقہ حصہ ڈھونڈ لائیں۔ فاروق نائیک صاحب آپ نے ہمیں درست کاپی فراہم نہیں کی۔ یہ پریشر والی بات سے متعلقہ حصہ نہیں ہے۔ 

مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے۔

عدالت نے آج کے حکمنامے میں لکھا ہے کہ رضا ربانی نے بتایا کہ صنم بھٹو اور آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ زاہد ابراہیم، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ خواجہ حارث کے والد وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے وکیل تھے۔ 

رضاربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون پر اعتراض اٹھا دیا۔ جس پر خواجہ حارث نے خود کو بطور عدالتی معاون مقدمہ سے الگ کر لیا۔

عدالت نے کیس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ 

مزیدخبریں