ایک نیوز نیوز: اسلام آباد کی 488 رہائشی عمارتوں میں کمرشل سرگرمیاں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں رہائشی عمارتوں میں ہاسٹلز، اسکول، اکیڈمیز، دفاتر، ریستوران اور گیسٹ ہاؤسز قائم ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹرز I-9 اور I-10 کے صنعتی پلاٹوں میں تجارتی کاروبار چل رہے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ سی ڈی اے کی بے ضابطگی سامنے لے آئی۔
رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے کی غفلت سے قومی خزانہ کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ قوائد کیخلاف کسی عمارت کو نہ جرمانہ ہوا نہ ہی عمارت سیل کی گئی۔ رہائشی عمارتوں میں بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2005 کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے۔
رپورٹ کےمطابق قوائد کے خلاف استعمال ہورہی عمارتوں کی پہلی سزا پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ جرم ثابت ہونے کے پندرہ دنوں کے اندر اضافی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ سی ڈی اے قانون کے مطابق تین ماہ بعد عمارت کو سیل یا خالی کروانا لازمی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمرشل سرگرمیوں سے قومی خزانے کو 25 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ سی ڈی اے نے ان رہائشی عمارتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ غیر قانونی استعمال والی عمارتوں کو ہٹایا گیا اور نہ ہی مالکان/قابضین پر جرمانہ عائد ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ رپورٹ میں انتظامیہ کی کوتاہی، ناقص نگرانی اور کمزور اندرونی کنٹرول کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ وفاقی ترقیاتی ادارے کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول نے جرمانے کی عدم وصولی کا جواب نہیں دیا۔ آڈٹ کی متعدد درخواستوں کے باوجود سی ڈی اے کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔