ایک نیوز: گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ صومیا عاصم کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ جہاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ملزمہ سومیا عاصم کو ڈیوٹی جج شائستہ خان کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا، پولیس نے ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ خاتون کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق قانون کیا ہے؟ پولیس نے موقف دیا کہ خاتون قتل یا ڈکیتی جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ہو تو ریمانڈ ہوتا ہے۔ فاضل جج شائستہ خان نے پوچھا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے۔ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمہ سومیا عاصم سے تفتیش کرنی ہے، ابھی کل ہی ضمانت خارج ہوئی ہے۔ بس اڈے سے ویڈیوز بھی لینی ہیں۔
جج شائستہ کنڈی نے پوچھا کہ اگر ویڈیوز ہی لینی ہیں تو سیف سٹی کیمرہ سے لے لیں، جسمانی ریمانڈ کیوں چاہئے۔ رسیدیں وصول کرنے کیلئے جسمانی ریمانڈ تو نہیں دے سکتے۔ میڈیا پر خبر چلنا شروع ہو گئی تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا۔
جج شائستہ کنڈی کے کہنے پر ملزمہ سومیا عاصم روسٹرم پر آ گئی، اپنے بیان میں کہا کہ ہر طرح کی تفتیش میں شامل ہونے کیلئے تیار ہوں، مجھے رات کو شامل تفتیش کیا گیا، ساڑھے 11 بجے تک دماغی ٹارچر کیا گیا۔ میں 3 بچوں کی ماں ہوں، میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ مجھے گھر لے کر گئے ہیں، کیمرے لگے ہیں، فوٹیجز نکلوا لیں۔
فاضل خاتون جج نے استفسار کیا کہ تفتیش کب شروع کرنی ہے۔ آپ کی بات کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ تفتیش کل ہی مکمل ہو چکی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ تفتیش ہو چکی ہے، مزید تفتیش کرنی ہے۔
جج شائستہ خان نے پوچھا کہ آپ لوگوں کی طرف سے جو پیسے دیئے گئے، کیا وہ گھریلو ملازمہ تھی؟
وکیل صفائی نے کہا کہ ہمارے اوپر الزام ہے کہ کمسن بچی ہماری ملازمہ ہے ۔
سومیا عاصم نے عدالت سے کہا کہ ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔ میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کیا جائے، میری بھی اولاد ہے۔
جج شائستہ خان نے پھر پوچھا کہ جسمانی ریمانڈ کیوں دوں؟
ملزمہ سومیا عاصم نے پھر کہا کہ میں ضمانت میں بھی شامل ہوئی، مجھے ٹارچر میں نہ رکھا جائے۔ میڈیا پر یہ سب کب چلا ہے، میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، بڑھا چڑھا کر باتیں کہی جا رہی ہیں۔
فاضل جج نے پوچھا آپ کے گھر تو بچی کام کرتی تھی ناں؟ ملزمہ سومیہ عاصم نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، جب وہ مٹی کھاتی تھی تو اسے بھیج دینا چاہئے تھا۔ تمام دستاویزات مہیا کئے ہیں، کچھ نہیں چھپاؤں گی۔ ساتھ ہی ملزمہ سومیا عاصم کمرہ عدالت میں رونے لگی۔ میرا جتنا میڈیا ٹرائل ہوا ہے، مجھے خودکشی کر لینی چاہئے۔
جج شائستہ خان نے ملازمہ رضوانہ کی حالت سے متعلق پوچھا جس پر ملزمہ کی بہن نے کہا کہ رضوانہ کی حالت اب کافی بہتر ہے، انتہائی نگہداشت یونٹ سے نکال لیا گیا ہے۔ جج شائستہ خان نے پوچھا آپ کون ہیں، جس پر جواب دیا کہ میں ملزمہ کی بہن ہوں۔
پراسکییوٹر وقاص نے دوران سماعت کہا کہ جسمانی ریمانڈ تو ملزمہ سومیا عاصم کی بہتری کیلئے ہے، کوئی ثبوت دینا چاہیں تو پولیس کو دے سکتی ہیں۔
عدالت نے ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔ جسے بعد ازاں سناتے ہوئے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی گئی اور ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔