اے دنیا تیرے رستے سے ہٹ جائیں گے
آخر ہم بھی اپنے سامنے ڈٹ جائیں گے
ایک نیوز نیوز: شاعر و ادیب اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر اختر شمار علالت کے بعد انتقال کرگئے، سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
رپورٹ کے مطابق ایف سی کالج کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اخترشمار سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ان کی عمر 65 برس تھی اور وہ جگر کے عارضے کا شکار تھے ۔ ۔ان کے پس ماندگان میں چار بیٹے اور بیوہ شامل ہیں ۔
اختر شمار ایک ڈیڑھ برس سے جگر کے عارضے کا شکار تھےان کا علاج جاری تھا کہ ان کے پھیپھڑے بھی متاثر ہو گئے اور سانس لینے میں دشواری کے بعد انتہائی نگہداشت وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ۔ جہاں علی الصبح ان کا انتقال ہوگیا ان کا جنازہ ان کی رہائش گاہ ٹرائیکون ویلج لاہور سے صبح 11 بجے اٹھایا گیا ۔ ان کی نماز جنازہ میں ان کے شاگردوں اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ انہیں مقامی قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔
اختر شمار کا اصل نام اعظم خان تھا ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ ہائی سکول پاک عرب ملتان سے میٹرک کے بعد انہوں ملتا ن سے ہی انٹر میڈیٹ کیا اور پھر 1985 میں لاہور منتقل ہو گئے ۔لاہور میں گریجویشن ،ماسٹرز کے بعد وہ محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے استاد بیدل حیدری کے استاد اور نام ور شاعر حیدردہلوی کے فن اورشخصیت پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی تحریر کیا۔ ڈاکٹراختر شمار ”اختر شماریاں “ کے نام سے نوائے وقت سمیت مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ انہوں نے ریڈیو اور پی ٹی وی کے لیے بھی بہت سے پروگراموں کی میزبانی کی ۔
انہوں نے ایف سی کالج لاہور میں صدرشعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران وہ مصر بھی گئے اور2008سے 2013تک جامعہ عین الشمس اور 2010 سے2013ءتک جامعہ الازہر میں خدمات انجام دیں۔ اختر شمارکا نام اردو کے ابتدائی ہائیکو نگاروں میں شامل ہے۔ ان کے ہائیکو کامجموعہ1980 میں شائع ہوا۔ ان کاپہلا شعری مجموعہ ”کسی کی آنکھ ہوئے ہم“ کے نام سے منظرعام پرآیا۔ دیگرکتابوں میں ”دھیان “ ،”جیون تیرے نام“ ،”یہ آغاز محبت ہے“ سمیت اردو،پنجابی کی بہت سی کتاب شامل ہیں۔ اخترشمار کی کئی غزلیں اوراشعار زبان زدعام ہیں۔ خاص طورپرنصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی ان کی ایک غزل کوبہت شہرت ملی۔
اس کے نزدیک غم ترک وفاکچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسا ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں