ایک نیوز :امریکہ کی ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے حکام نے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ مل کر ایک ’ڈس انفارمیشن‘ گروپ بنایا جس نے 2020 کے انتخابات سے قبل امریکیوں کے اظہارِ رائے کو سینسر کیا۔
ہاؤس پینل کی جانب سے جاری کردہ 103 صفحات پر مشتمل عبوری رپورٹ میں الیکشن انٹیگریٹی پارٹنرشپ (EIP) کی جانب سے حاصل کردہ پہلی بار منظرِ عام پر آنے والی ای میلز اور اندرونی پیغامات شامل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروپ نے سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی (CISA) کے ہمراہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پوسٹس کو نشان زد (flag) کرنے، دبانے اور ڈیلیٹ کرنے کے لیے کام کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت اور یونیورسٹیوں نے سوشل میڈیا کمپنیوں پر درست معلومات، لطیفے اور سیاسی آرا کو سینسر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔یہ دباؤ بڑے پیمانے پر اس طرح سے ڈالا گیا تھا جس سے سیاسی دھارے کے ایک حصے کو فائدہ پہنچایا گیا۔ رپبلکن پارٹی اور قدامت پسندوں کی طرف سے پوسٹ کی گئی درست معلومات پر ’غلط معلومات‘ (فیک نیوز) کا لیبل لگایا گیا جبکہ ڈیموکریٹس اور لبرلز کی طرف سے پوسٹ کی گئی غلط معلومات کو زیادہ تر سینسر کی جانب سے چھوا تک نہیں گیا۔‘
اس رپورٹ میں اداروں اور افراد کے نام بھی شامل ہیں جنہیں رپورٹ کے مطابق سینسر کا نشانہ بنایا گیا۔ان میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سابق سپیکر نیوٹ گنگرچ، گورنر مائیک ہکابی، کانگریس وومن مارجری ٹیلر گرین، صحافی شان ہینیٹی، اخبار ’نیوز میکس،‘ اور ’بیبیلون بی‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اخبار ’نیویارک پوسٹ‘ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ای آئی پی نے ریاستی اور مقامی حکام کی جانب سے فیس بک، ایکس اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر سے مواد ہٹانے کے لیے دی جانے والی درخواستوں کے لیے ’سوئچ بورڈنگ‘ نامی حربہ استعمال کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ میں سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 2018 میں اخبار نیویارک ٹائمز نے، لندن کے آبزرور اور دی گارڈین کے ساتھ مل کر انکشاف کیا تھا کہ ’کیمبرج اینالیٹیکا‘نامی ایک کمپنی نے فیس بک سے ووٹر پروفائلز حاصل کرنے کے لیے ڈیٹا حاصل کیا۔