تفصیلات کے مطابق صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی درخواست پر سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز سمیت متعلقہ افراد عدالت میں پیش ہوئے کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے شہباز شریف کی درخواست پر اعتراض اٹھایا کہ شہباز شریف نے درخواست میں ہیں لکھاکہ ایمرجنسی میں جانا ہے۔ کہتے ہیں کہ 20 مئی کو ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ قطر میں 10 دن قرنطینہ کریں؟ قرنطینہ کم سے کم 14 دن کے لیے ہوتا ہے۔ شہبازشریف اگر پہلے قطر جاتے ہیں اور پھر برطانیہ تو 20 مئی تک کیسے معائنہ کراسکتے ہیں؟
عدالت نے سرکاری وکیل سے سوال کیا آپ بتائیں کہ شہبازشریف کا نام بلیک لسٹ میں ہے یا نہیں؟ ایک ایسا شخص جس کی ضمانت ہو چکی ہے اور ای سی ایل میں نام بھی نہیں ہے۔ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں اور پہلے دو مرتبہ جا کر واپس آچکے ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل اور شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے شہباز شریف کو طلب کیا تھا، جس پر اپوزیشن لیڈر لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، عدالت نے صدر مسلم لیگ (ن) سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ آپ کے علاج میں کتنا وقت لگے گا؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ مجھے جب ڈاکٹر واپسی کی اجازت دینگے فوری واپس آ جاؤں گا ساتھ ہی شہباز شریف نے تین جولائی کی واپسی کا ٹکٹ لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا۔
شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ میں پہلے بھی دو بار بیرون ملک جا کر خود واپس آیا، کیا میں دہشتگرد ہوں کہ میرا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا؟ میں تین بار وزیراعلیٰ پنجاب رہا اب قائدحزب اختلاف ہوں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ تو آپکے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ واپس آئیں گے۔شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا کہ میں کینسر کا مریض رہا ہوں، مرض کے باعث مجھے سال میں دو مرتبہ چیک اپ کرانا پڑتا ہے،مجھے جلاوطنی کے دوران یہ مرض لاحق ہوا،امریکی ڈاکٹرز نے کہا کہ لندن میں علاج کرایا جائے۔
عدالتی نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف 8 ہفتوں کے بعد پاکستان واپس آنے کے پابند ہوں گے۔عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے تفصیلی رپورٹ اور جواب طلب کر لیا ہے۔