ایک نیوز : وفاقی ادارہ برائے شماریات نے گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے اعداد و شمار پر نظر ثانی کرتے ہوئے حالیہ ہونے والے اضافے کو 480 فیصد قرار دیدیا۔
تفصیلات کےمطابق وزارت توانائی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اضافہ محض 150 فیصد تھا اور دوسری وجہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح میں کمی کا واقع ہونا ہے جس کی وجہ سے بھی گیس قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے اعداد و شمار میں 57 فیصد کی کٹوتی یعنی نچلے طبقے کے لیے 1108 فیصد سے کم ہو کر 480 فیصد رہ گئی ہے۔
عہدہ چھوڑنے سے قبل سابق وزیر توانائی محمد علی نے وزیر منصوبہ بندی سمیع سعید کو خط لکھا تھا۔ محمد علی نے حالیہ اجلاسوں کے دوران پٹرولیم ڈویژن کے مشاہدات کی روشنی میں افراط زر کے اعداد و شمار کو ایڈجسٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے قیمتوں میں 1109 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ماہانہ 17 ہزار 732 روپے تک کماتے ہیں لیکن پی بی ایس نے کبھی بھی گراوٹ کے بارے میں اعلان نہیں کیا اور خاموشی سے نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر فروری کے تیسرے ہفتے کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کی رپورٹ جاری کی۔
چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے دعویٰ کیا کہ پی بی ایس نے گیس کی قیمتوں میں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، گیس کی قیمتوں میں اس کمی نے فروری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں بھی کمی میں کردار ادا کیا جو تقریبا ڈیڑھ سال کی کم ترین سطح 23.1 فیصد پر آ گیا۔ افراط زر کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار پاکستان کے قرضوں کی پائیداری پر سنگین اثرات مرتب کرتے ہیں کیونکہ مرکزی بینک مجموعی افراط زر کی شرح کی روشنی میں شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ ایک فیصد زیادہ شرح سود سے موجودہ قرضوں پر سالانہ 260 ارب سے 280 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔