ایک نیوز :پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اعلی عدلیہ کے ججز کی تنخواہوں، مراعات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے بجٹ کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔
پی اے سی نے ایک ماہ میں اعلیٰ عدلیہ کے ججزکی تنخواہوں، مراعات اورپلاٹوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نورعالم خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ریونیو ڈویژن سے متعلق سال 2021-22 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے ہدایت کی تھی کہ ایک ضلعے یا صوبے میں تین سال سے زیادہ تعینات رہنے والے افسران کی فہرست فراہم کی جائے، کیا ان افسران کی فہرست آپ تک پہنچ گئی ہے؟
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ وہ فہرست ہمارے پاس نہیں آئی، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایف بی آر ہر بندے سے پوچھے کہ آپ انکم ٹیکس کتنا دیتے ہیں، گھر کیسے بنایا، پلازہ کیسے خریدا؟
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے سے ابھی تک ہمارے پاس ڈیٹا نہیں آیا۔ جس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ اگر کوئی تین چار کروڑ کی دکان خرید رہاہے تو ان کا ریکارڈ آپ چیک کریں۔
کمیٹی نےاسلام آباد میں سڑکیں بند کئے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے برہمی کا اظہارکیا۔نور عالم خان نے کہا کہ اتوار کے دن پشاور سے آرہا تھا تو سری نگر ہائی وے بلاک کی گئی تھی، آپ روڈ بلاک نہیں کرسکتے، سڑکوں کو بند نہ کیا کریں، ہم نے سیکرٹری داخلہ کو خط لکھ دیا ہے کہ یہ غیر قانونی کام نہ کیا جائے، وی آئی پی کلچر کوختم نہیں کیا جارہا۔
نور عالم خان کا کہنا تھا کہ آڈٹ صرف پیسوں کانہیں ہوگا،ہرچیز کا آڈٹ ہو گا،آڈٹ والے اپنی مرضی سے سیمپلنگ کرسکتے ہیں،حکومت کے عوام کے پیسے کیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ہر ادارے میں پرفارمنس آڈٹ ہونا چاہیے، کس کو کتنے پلاٹ ملے ہیں، تفصیلات کمیٹی کو بتائی جائیں، کمیٹی نے آڈٹ حکام کو سپریم کورٹ کا آڈٹ کرنے کی ہدایت کردی ۔
ممبر کسٹم ایف بی آر نے کہا کہ چاغی میں فینس نہیں ہے وہاں سے اسمگلنگ ہوتی ہے،بسیں بھی پکڑی جارہی ہیں، کنٹینر بھی پکڑے جارہے ہیں۔
نزہت پٹھان نے کہا کہ ایران سے جو زائرین کی بسیں آتی ہیں ان کے ساتھ غیر قانونی سامان ہوتاہے،پتہ نہیں کیسے کسٹم ان کو کلیئر کرکے باہر نکالتا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کاکہنا تھا کہ ہم پاکستان کے لئے کام کرتے ہیں، گرین چینل کے ذریعے اسمگلنگ ہوتی ہے، کلیکٹرز ملوث ہوتے ہیں اس کوچیک کریں۔