ایک نیوز:پنجاب انتخابات الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہاکہ سپریم کورٹ ریویو ججمنٹ اینڈ آرڈر آئین سے متصادم ہے،ایکٹ کی شق 5 کہتی ہے 184 کی شق3 کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق ہو گا، میری استدعا ہے شق5 کا اطلاق پنجاب کے انتخابات پر نہیں ہو سکتا،مجھے یقین ہے عدالت اس قانون کو کالعدم قراردے گی ۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر نظر ثانی درخواست پر سماعت شروع ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ نیا قانون بنا اس پر آپ کو نوٹس کر رہے ہیں،ہم ریویو ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کیخلاف کیس، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس دونوں کو اکٹھا سنیں گے۔
عدالت نے پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
وکیل علی ظفر نے کہاکہ سپریم کورٹ ریویو ججمنٹ اینڈ آرڈر آئین سے متصادم ہے،ایکٹ کی شق 5 کہتی ہے 184 کی شق3 کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق ہو گا، میری استدعا ہے شق5 کا اطلاق پنجاب کے انتخابات پر نہیں ہو سکتا،مجھے یقین ہے عدالت اس قانون کو کالعدم قراردے گی۔
وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ اگر قانون برقرار رہے گا تو 5 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے گا، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کو پرانے قانون کے تحت سنا جائے۔عدالت انتخابات نظرثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریباً ہوچکے، اب کیس مکمل کرلینا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل دینا ہوں گے، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہوچکا ہے؟ بتائیں کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کیس کی سماعت ملتوی نہ کرے،نئے قانون کی شق 5 کا اطلاق پنجاب الیکشن کیس پر نہیں ہوتاہے،مجھے امید ہے عدالت دونوں قوانین کو کلعدم قرار دے گی۔
جسٹس منیب اختر نےاستفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں پنجاب الیکشن کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی میں یہی کہنا چاہتا ہوں کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے مکمل انصاف کی فراہمی بارے بہت اچھے دلائل دیئے،یہ بالکل نیا کیس نہیں ہے،14 مئی کا انتخابات کرانے کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، کیا آئینی ہدایات کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے،سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے بحث ہوچکی، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہےگا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں، دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جاسکتے ہیں،کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التوا کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز تشدد اور زور زبردستی سے نہیں ہوسکتی۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ کرنےکی استدعا کرتے ہوئےکہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے، 15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا، 15مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی، ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہےکہ آئین کا قتل ہوچکا، وزیراعظم، چیف جسٹس سمیت سب نےآئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔
بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ جب ریویو ایکٹ پاس ہوا توسینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہےہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا اور وہاں بحث بھی نہیں ہوئی، آرٹیکل184 تھری میں ترامیم اچھی ضرور ہیں مگر یہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، عدلیہ کی آزادی سےمتعلق قوانین آئینی ترمیم سے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل184 تھری میں اپیل کا حق دیا جو خلاف آئین ہے؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائےگئے وہ نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نےاستفسار کیا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تھری سےمتعلق اچھی ترامیم ہیں،صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل184 تھری پر نظرثانی کو اپیل قرار دے دیا،اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حثیت میں ہیں اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔
چیف جسٹس نے ریمار کس دیئے کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو، اچھی بات یہ ہوئی ہےکہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنےکا فیصلہ کیا ہے،آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں قانون اور حقائق پر ہے،حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں،حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی،کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ یہ جو انصاف کا کام ہم کررہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے،ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔
سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواست گزار زمان خان وردگ اور دوسرے درخواست گزار غلام محی الدین نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپنالیے۔
عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
بعد ازاں عدالت نے پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر:
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق جب بھی کوئی اسمبلی تحلیل ہو 90 روز میں الیکشن ہوں،سپریم کورٹ کی ہدایت پر پنجاب کے الیکشن کیلئے 14 مئی کی تاریخ مقرر کی لیکن الیکشن نہ ہوئے،پنجاب میں آئین کالعدم ہے،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی،کچھ درخواستیں سپریم کورٹ ججمنٹس ریویو ایکٹ کے حوالے سے دائر کی گئیں،اٹارنی جنرل اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیے،کیس کی مذید سماعت اگلے منگل کو ہوگی۔اب کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔انشاءاللہ آئین کی فتح ہوگی۔
خیال رہے کہ 29 مئی کو سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023 کے نفاذ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔
نئے قانون کے تحت 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی، نئے قانون کے مطابق اپیل فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنےگا۔
نئے قانون کے تحت نظر ثانی کی درخواست کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا، ماضی میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا تھا جس نے وہ فیصلہ دیا ہوتا تھا۔
یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پہلے الیکشن کمیشن کو 4 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا تھا بعد ازاں دوسرے فیصلے میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا تاہم الیکشن کمیشن عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کراسکا۔