ایک نیوز: طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان خواتین مشکلات کا شکار ہیں ،انکے خواب چکنا چورہو رہے ہیں، طالبان کے ہاتھوں خواتین کے حقوق کے غصب کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈوبتی ہوئی ملکی معیشت اور گھر کے بھاری بھرکم اخراجات کے پیش نظر افغان خواتین طالبان کی لگائی گئی پابندیوں کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں ، خواتین اپنی مرضی سے کام نہیں کر سکتی ہیں،فروزان احمد زئی ان 2 لاکھ افغان خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں طالبان کی جانب سے کام کرنے کی اجازت نہیں۔
فروزان ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اسی خواب کی تکمیل کے لیے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن طالبان کے جبر اور سخت پالیسیوں کے تحت اب وہ ایک دکان میں اچار بنانے پر مجبور ہیں ۔
افغانستان میں خواتین کے لیے ملازمتوں کو تقریباً ختم کیا جا چکا ہے جسکے باعث خواتین کے کام کرنے مواقع بھی محدود ہو چکے ہیں ،ورلڈ بینک کے مطابق 2023 میں افرادی قوت میں خواتین کی شرح صرف 4.8 فیصد رہ گئی ، خواتین کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بہت مسائل کا سامنا ہے۔
خواتین کے مطابق، کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز زیادہ، سلائی مشینیں پرانے زمانے کی ہیں اور معاوضہ بھی مناسب نہیں ملتا ، طالبان سے صرف کام کرنے کی اجازت ملنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اپنی مرضی کا کام ملنا تو دور کی بات ہے، افغان خواتین اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان خواتین اور لڑکیوں کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ جابر ملک بن گیا ہے۔
افغان خواتین کو کام کرنے کے چیلنجز کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے چیلنج بھی متاثر کر رہے ہیں ،اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں تین سال سے خواتین کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں اور اب خواتین سرکاری ملازمین کی اجرتیں کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں جنہیں کام سے پہلے ہی روکا جا چکا ہے ۔
طالبان کی جانب سے مسلسل خواتین کے حقوق کی پامالی پر اب عالمی طاقتوں کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔