ایک نیوز: چوبیسواں یومِ شہادت حوالدار لالک جان شہید(نشان حیدر) آج منایا جارہا ہے۔ 1965کی جنگ ہو یا کارگل کا محاذ، قوم کے بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاک دھرتی کو ہمیشہ شاد و آباد رکھا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال حوالدار لالک جان کی ہے۔ جنہوں نے کارگل جنگ میں دُشمن کو ایسی کاری ضرب لگائی جسے ہمیشہ یاد رکھے گا۔ کشمیر کی وادی غزر جسے وادی شہداء بھی کہا جاتا ہے، آج بھی لالک جان کے قصیدوں سے گونج رہی ہے۔ جہاں انہوں نے اپنے خُون سے، وطن سے وَفا کی لازوال داستان رقم کی۔
دُنیا کے بُلند ترین محاذِ جنگ کارگل میں دُشمن پر دھاک بٹھانے والے حوالدار لالک جان گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی تحصیل یاسین میں 01 اپریل 1967 کو ایک غریب کسان نیت جان کے گھرپیدا ہوئے۔ لالک جان نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1984میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔
ناردرن لائیٹ انفنٹری رجمنٹ ٹریننگ سنٹر بنجی میں ابتدائی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد آپ نے1985 میں 12 ناردرن لائیٹ انفنٹری میں شمولیت اختیار کی۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بناء پر آپ یونٹ کی بیشتر ٹیموں کا حصہ رہے۔ آپ کی ڈرل، فوجی ٹرن آؤٹ، جسمانی چستی ہمیشہ مثالی رہی۔
آپ نے یونٹ کی کمانڈو ٹیم کو پہلی پوزیشن دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ کی ہتھیاروں کو چلانے کی مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ بطور ویپن ٹریننگ انسٹرکٹر ناردرن لائیٹ انفنٹری رجمنٹ سنٹر، بنجی میں تعینات رہے۔ معرکہ کارگل کے آغاز میں لالک جان اپنے گھر چھٹیوں پر تھے، جب ان کو کارگل لڑائی کی خبر ملی۔
لالک جان نے اپنے والد محترم سے محاذجنگ کی طرف روانہ ہونے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ”میری چھٹیاں ختم ہونے میں چھ روز باقی ہیں اور یہ دن میں گھر گزارنے کے بجائے محاذجنگ پر گزارناچاہوں گا“۔
ماں سے کہا کہ ”میرے لیے دعا کرنا کہ میں ملک کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوجاؤں“۔ لالک جان کی یہ آرزو پوری ہوئی اور ان کے والد نیت جان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ میرے بیٹے نے اپنی جان سے بھی عزیز ملک پاکستان کے گلشن کو سیراب کرنے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ بحیثیت ایک جونیئر لیڈر آپ نے اپنے جرأت مندانہ اقدام کی بدولت دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا اور ان کے متعدد حملے پسپا کیے۔
مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ لالک جان نے نہ صرف اپنی پوسٹ کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ دشمن کے متعدد حملوں کو ناکام بنا کر اُسے بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا۔ 12جون 1999ء کولالک جان نے اچانک ایسا زبردست حملہ کیا کہ دُشمن اپنی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا۔
قادر پوسٹ کے زبردست دِفاع کا اعتراف دُشمن نے ان الفاظ میں کیا کہ ”کسی بھی سپاہی نے اپنی پوسٹ نہ چھوڑی۔ یہ دِفاعی جنگ بہادری کی اعلیٰ مثال ہے۔ جو آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑی گئی“۔ مئی1999میں جب یہ معلوم ہوا کہ دشمن ایک بڑے زمینی حملے کی تیاری کررہا ہے تو حوالدار لالک جان نے اگلے مورچے پر لڑائی لڑنے کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کیں۔
حوالدار لالک نے اپنے سینئر افسروں سے اگلے مورچوں پر جانے کے لئے اصرار کیا اورایک انتہائی مشکل پہاڑی چوکی پر دشمن سے نبردآزما ہونے کے لیے کمر باندھ لی۔ جون کے آخری ہفتے کی ایک رات دشمن کی ایک بٹالین کی نفری نے حوالدار لالک جان کی چوکی پر بھر پور حملہ کیا۔
حملے کے دوران حوالدار لالک جان اپنی جان سے بے پروا ہوکر مختلف پوزیشنوں سے فائر کرتے رہے اور ہر مورچے میں جاکر جوانوں کے حوصلے بڑھاتے رہے۔ رات بھر دشمن کا حملہ جاری رہا اور لالک جان نے دشمن کے تمام ارادوں کو ناکام بنادیا اور صبح تک دشمن سپاہ لاشوں کے انبار چھوڑ کے پسپا ہوچکی تھی۔ دوسری رات بھی لالک جان نے بے باکی اور جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔
7 جولائی کو دشمن نے لالک جان کی پوسٹ پر توپ خانے کا بھرپور فائرکیا اور پورا دن گولیوں کی بارش ہوتی رہی۔ رات کو دشمن نے ایک بار پھر لالک جان کی پوسٹ پر تین اطراف سے حملہ کردیا اور حملے کے دوران دشمن کے فائر سے لالک جان شدید زخمی ہوئے۔ کمپنی کمانڈر کے اصرارکے باوجود اپنی پوسٹ پر زخمی حالت میں بھی ڈٹے رہے اور دشمن کا مقابلہ جاری رکھا۔
جب حوالدار لالک جان کے زخموں کی شدت کو دیکھتے ہوئے کیپٹن احمد نے واپس جانے کا حکم دیا تو آپ نے جواب میں کہا کہ”میں ہسپتال میں بستر پر موت کو گلے لگانے سے بہتر میدان جنگ میں دُشمن سے لڑتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے ملنا پسند کروں گا“۔
آخر کار اس شیردل انسان نے دشمن کے اس حملے کو بھی ناکام بنادیا لیکن اس کے ساتھ زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے حوالدار لالک جان 7جولائی 1999 کواپنی پوسٹ پر ہی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے۔ کارگل جنگ میں جب دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے حملہ آور ہوا تو منفی30درجہ حرات، یخ بستہ ہوائیں اور جان لیوا زخموں کے باوجود حوالدار لالک جان نے کمال جرأت کا مظاہرہ کیا۔
مرد ِ مُجاہد نے کئی گھنٹوں تک لائیٹ مشین گن سے دُشمن کو بھاری نقصان پہنچایا لیکن مورچہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ حوالدار لالک جان دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور ملک کا دفاع کیا جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ ان کی لازوال شجاعت، بے باکی اور جذبہ شہادت کے اعتراف میں انہیں ملک کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر عطا کیاگیا۔