ایک نیوز : سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی کاکہنا ہے کہ ایکسٹیشن دینے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کا قانون ختم کردینا چاہیے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایکسٹینشن کی قانون سازی سے ایک غیرمعمولی عمل کو معمول کا کام بنادیا گیا ہے، جس وقت یہ قانون سازی ہوئی اس وقت ایکسٹیشن دی جاچکی تھی اور آرمی چیف قبول کر چکے تھے، اس وقت ایکسٹیشن کی قانون سازی نہ کرنا ملک اور فوج کے مفاد میں نہیں تھا مگر اب ایکسٹیشن دینے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کا قانون ختم کردینا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کی 4 سال کی غفلت اور کوتاہیاں ہیں جو ایک سال میں دور نہیں ہوں گی۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ آئین وقانون کے نظام سے باہر جائیں گے تو مسائل پیدا ہوں گے، اداروں کو آئین کے اندر رہنا ہوگا، مختلف طریقوں سے ملکی معاملات میں مداخلت ہوئی، تعلقات خراب ہوئے، ہمیں ماضی کے معاملات سےسبق حاصل کرنا چاہیے، فوج کابڑا حصہ آئین سے باہر رہاہے، اس معاملے کو ختم کرنا مشکل کام ہے، مجھے امید ہےفوج کی آگے کی لیڈرشپ آئین میں رہے گی۔
سابق وزیراعظم کاکہنا تھا کہ افغانستان سے خودمختار ملک کی حیثیت سے تعلقات رکھنے ہیں، ہمارے تعلقات تاریخی طورپراچھے رہے ہیں۔ طاقت کا استعمال اور مذاکرات اکٹھے ہوتے ہیں، آپ کے خلاف کسی دوسرے ملک کی زمین استعمال ہوتی ہے تو اس ملک کوبھی کارروائی کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھاکہ بھارت نے جوکچھ 3 سال پہلےکیا، جب تک وہ معاملات طے نہیں ہوتے، تجارت ہونا مشکل ہے، بیان کی سختی کی نہیں بلکہ بیان کی حقیقت کی بات ہوتی ہے، بھارت کی لیڈرشپ اگر ہم پر تنقید کرتی ہے تو ان کی اپنی حقیقت کیا ہے؟
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ سیاسی اور ملکی مفاد میں ہمیشہ ملکی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے، عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدےکو توڑا، ہم نہ بچاتے تو ملک ڈیفالٹ کرچکاہوتا۔ مشکل فیصلے ملکی مفادمیں ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کےمفاد میں نہیں۔ عمران خان کی4 سال کی غفلت اور کوتاہیاں ہیں، ایک سال میں دورنہیں ہوں گی، ہمیں ملک کی معیشت کواستحکام دیناہے، معیشت کے معاملےکو ٹھیک کرنا ایک ماہ یا سال کی بات نہیں، طویل وقت درکارہے۔
سابق آرمی چیف سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ جنوری 2020 میں آرمی ایکٹ1952 میں ترمیم سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیناغلطی تھی۔ ان کو3 سال کی توسیع دینےوالی غلطی کومنسوخ کرنےکی ضرورت تھی، میری پہلے دن سے یہ ذاتی رائے ہے وہ ترمیم ایک غلطی تھی، توسیع ایک غیر معمولی عمل ہے، اسے معمول کا کام نہیں بنانا چاہیے۔