ایک نیوز: 1971 سے متعلق چند تاریخی حقائق ایسے بھی ہیں ، جو اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا پھر ان حقائق کو اس درجے پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ، جس قدر ہونا چاہئے۔ مغربی محاذ پر معرکہِ حسینی والا بھی انہی میں سے ایک ہے ، جب دشمن کے ہر قسم کے ہتھیاروں اور بارودی سرنگوں کے باوجود پاک فوج کے جوانوں نے سر بکفن ہو کر وطن عزیز کا دفاع کیا۔
تفصیلات کے مطابق مشرقی پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات اور بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث پاکستان کی عسکری قیادت نے مغربی سرحد کی جانب سے بھارت پر دباوٴ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی محاذ پر معرکہِ حسینی والا میں پاک فوج نے ضلع قصور سے متصل فیروزپور ہیڈورکس پر بھارتی فوج کے دفاعی حصار کو توڑ کر ہیڈورکس پر قبضہ کر لیا۔
تاریخی اور دیگر لحاظ سے اہم حسینی والا کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ ہیڈورکس پر کنٹرول حاصل کرنے سے ان نہروں کو بند کیا جاسکتا تھا جو گنگا نگر اور کرن پور کے بھارتی اضلاع کی آبپاشی کرتی تھیں۔ 3پنجاب کو دشمن کے دفاعی حصارکو توڑ کر ہیڈ ورکس تک کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا، اس آپریشن کی کامیابی اس لئے ضروری تھی کہ 106 بریگیڈ کے آپریشن کے اگلے مراحل کا دارومدار 3 پنجاب کی کامیابی پر تھا۔
اس منصوبہ بندی کے تحت ایک کمپنی کو دیپا لپور نہر کا بایاں کنارہ کلیئر کر کے پورے حصار کے بائیں حصہ پر قبضہ کرنا تھا، ڈی کمپنی کو دائیں کنارے فیروز پور ہیڈ ورکس تک کے علاقے کو محفوظ کرنا تھاجبکہ ایلفاکمپنی کوجنگ کے اگلے مرحلے میں راجو کے پوسٹ کو قبضے میں لینا تھا۔ تمام کمپنی کمانڈر و جوان جذبہ جہاد سے سر شار معرکہ ء حق وباطل میں شامل ہونے کے لئے سرپر کفن باندھ کر تیار ہو گئے۔
3دسمبر 1971کو وہ دن آن پہنچا جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں۔ شام چھ بجے کیکرپوسٹ سے جنگی کارروائی کا آغاز ہوا، ٹھیک چھ بج کر پندرہ منٹ پر پاکستانی توپخانے نے دشمن پر کارگر گولہ باری کا آغاز کر دیا، بی کمپنی زیرِ کمان کیپٹن عارف سعید اپنے مشن کے مطابق دیپالپور نہر کے بائیں کنارے کی جانب بڑھنا شروع ہوئی تو دشمن نے ہر قسم کے ہتھیاروں کا فائر کھول دیا، اس اندھا دھند فائر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بی کمپنی نے دشمن کی بچھائی بارودی سرنگوں کو عبور کیااور پیش قدمی جاری رکھی۔
کیپٹن عارف سعید نے دشمن کی مشین گنوں کے بنکرز کو گرنیڈ سے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا، اسی دوران دشمن کی گولیاں کیپٹن عارف سعید کے بازو میں آ لگیں لیکن زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے کیپٹن عارف سعید نے اپنی کمپنی کو آگے بڑھتے رہنے کا حکم دیا، یکایک دشمن کے ایک بنکر سے مشین گن نے براہ راست کمپنی کمانڈر کو نشانہ بنایا، اس مشین گن کی گولیاں کیپٹن عارف سعید کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور وہ شہاد ت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے۔
کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین چوہدری کیکر پوسٹ سے تمام جنگی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے، کیپٹن عارف سعیدکی شہادت پر کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین چوہدری اسی وقت بی کمپنی کی جانب تیزی سے روانہ ہوگئے، کمانڈنگ افسر کو بخوبی علم تھا کہ اگر بی کمپنی کا مشن ادھورا رہ گیا توپورے بریگیڈ کی کارروائی متاثر ہو جائے گی۔
لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین چوہدری نے بذات خود بی کمپنی کی کمان سنبھال لی اور دشمنوں کے بنکر کو کلیئر کرنا شروع کر دیا، سب سے پہلے انہوں نے اس بنکر کو خاموش کروایا جہاں سے کیپٹن عارف شہید پر فائر کھولا گیا تھا، جس کے بعد دشمن کے دو مزید مضبوط بنکرز بھی تباہ کئے۔ اس دوران دشمن کی مشین گن نے لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین اور ان کے وائیرلیس آپریٹر لانس نائیک شاہ راہ خان کو نشانہ بنایاجس کے نتیجے میں لانس نائیک شاہ راہ خان شدید زخمی جبکہ کرنل غلام حسین چوہدری شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔
لانس نائیک شاہ راہ خان نے کسی صورت میں یہ تاثر نہیں دیا کہ کمانڈنگ افسر شہید ہو چکے ہیں، وائیرلیس پر بی کمپنی کا مشن مکمل ہونے کا آخری پیغام نشر کرتے ہی زخموں سے چور لانس نائیک شاہ راہ خان نے بھی جام شہادت نوش کر لیا۔ پاک فوج کے شہداء کا یہ کارنامہ غیر معمولی بہادری، لگن، حب الوطنی، جرات اور بہادری کی درخشاں مثال ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل ِراہ ہے۔